نواز طاہر:
پنجاب میں نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کا اگلا مرحلہ آج شروع ہو رہا ہے، جو خانہ پُری ہو سکتا ہے اور اگلے دو روز میں معاملہ حتمی فیصلے کیلیے الیکشن کمیشن کے پاس جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس دوران پی ٹی آئی کے اتحاد نے اپنے تجویز کیے جانے والے نام تبدیل کر دیئے ہیں، جس سے صورتحال متنازع ہوگئی ہے۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اپنے ساتھیوں سے اختلافِ رائے کے باوجود پہلے پنجاب اور پھر خیبر پختون کی صوبائی اسمبلی توڑے جانے کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی طرف سے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی ’’سرپرائز‘‘ منظوری دی۔ اب ان حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس اعلان کے ردعمل میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی سرپرائز اعلانات سامنے آرہے ہیں۔ جن میں عمران خان کا تمام حلقوں سے امیدوار بننے کا ابتدائی اعلان اور اس کے جواب میں پی ڈی ایم کی جانب سے امیدوار نہ دیے جانے کا عندیہ بھی غیر معمولی ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اس وقت تک کوئی بھی اعلان فائنل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عمران خان کا قومی اسمبلی کی تمام پینتیس نشستوں پر ضمنی الیکشن خود لڑنے کا فیصلہ حتمی نہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ذرائع بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ ضمنی الیکشن کے حوالے سے حتمی رائے قائم نہیں کی گئی۔
البتہ اس پر گفتگو جاری ہے اور فیصلہ پی ڈی ایم کی قیادت تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد کرے گی۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی کی اطلاعات بھی ہیں، جن میں سب سے معتبر اطلاع پنجاب کے گورنر محمد بلیغ الرحمان کی قرار دی جا رہی ہے۔ تاہم نواز شریف کے قریبی ذرائع کا خیال ہے کہ نواز شریف وطن واپس آنے کا فیصلہ تو کرچکے ہیں۔ لیکن ان کی وطن واپسی کی مدت ایک ماہ نہیں ہے، یہ اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگر سیاسی حالات میں کسی وجہ سے اچانک بہت تیزی آجاتی ہے تو اس سے پہلے بھی واپسی کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ البتہ ان کی صاحبزادی اور پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز اپنے والد سے پہلے وطن پہنچیںگی اور ممکنہ طور پر جنوری میں ہی آنے والی ہیں۔
ذرائع کے مطابق مریم نواز مزید کچھ وقت والد کے ساتھ قیام کی خواہاں تھیں۔ لیکن سیاسی حالات نے لندن میں مزید قیام مشکل بنا دیا ہے اور وہ وطن واپس لوٹ رہی ہیں۔ ذرائع نے کہا ہے کہ مریم نواز کی جلد واپسی کی ایک وجہ جماعت کے اندر قیادت کے خلا کے باعث پیدا ہونے والی مایوسی بھی ہے۔ جبکہ ایک اجلاس کے دوران کچھ رہنماؤں نے پارٹی کی عوامی رابطہ مہم چلانے کی ذمہ داری سے معذرت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پارٹی کی قیادت کو اس وقت خود یہاں موجود ہونا چاہئے، صرف کارکنوں کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔ جبکہ قیادت کے کچھ منظورِ نظر رہنما بہتری لانے کے بجائے مسائل پیدا کرنے کا موجب بنے ہیں اور یہ مسائل صرف پارٹی قیادت حل کرسکتی ہے بلکہ نیا ولولہ پیدا کرکے بہتر نتائج بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی ملک میں موجود قیادت بھی سیاسی رابطوں میں متحرک ہے۔ جمعرات کو وزیراعظم شہباز شریف کی لاہور میں موجودگی کے دوران مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کرنے والے کچھ رہنما ماڈل ٹاؤن میں موجود رہے، جن میں سب سے قابلِ ذکر نام ہارون اختر کا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ اختر عبدالرحمان کے خاندان کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی کا اعلان ہونے والا ہے۔ تاہم لیگی ذرائع حتمی طور پر اس کی تصدیق نہیں کر رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب بشمول ملتان میں بھی ایسی اطلاعات ہیں کہ کچھ رہنما پی ٹی آئی سے علیحدگیی اختیار کرکے دوسری جماعت میں جانے والے ہیں اور یہ جماعت پیپلز پارٹی ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب پنجاب میں نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کا دوسرا مرحلہ باقاعدہ طور پر آج جمعہ کو شروع ہو رہا ہے اور اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان نے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس تین بجے سہ پہر طلب کیا ہے۔ اس کمیٹی کا نوٹیفکیشن رات گئے جاری کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر قانون بشارت راجہ، سابق سینئر وزیرمیاں اسلم اقبال اور سابق وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت پی ٹی آئی اتحاد کی جانب سے، جبکہ پیپلز پارٹی کے سابق پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ، مسلم لیگ (ن) سابق وزیر خوراک ملک ندیم کامران اور سابق وزیر قانون ملک محمد احمد خان پی ڈی ایم کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہیں۔
اسمبلی چیمبرز کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن میں پہلے اس کمیٹی کے اجلاس کا وقت دو بجے مقرر کیا گیا تھا، لیکن بعد میں اسے تبدیل کرکے تین کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ تبدیلی پی ٹی آئی کے پارلیمانی مشاورتی اجلاس کے باعث تبدیل کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی صدارت میں اجلاس میں نگراں وزیراعلیٰ کے مجوزہ نام تبدیل کیے گئے اور اسپیکر کو باقاعدہ آگاہ کیا گیا، اب پی ٹی آیی اتحاد کی جانب سے دو نام واپس لیے گئے ہیں، جن میں ناصر کھوسہ جو پہلے ہی معذرت کرچکے تھے اور دوسرا نام سابق وزیر صحت نصیر خان کا نام شامل ہے۔
اب ان کی جگہ پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری نوید اکرم چیمہ کا نام شامل کیا گیا ہے۔ جن کے بارے میں بیوروکریسی میں ایک پروفیشنل اور دبنگ افسر کی شہارت ہے اور اس کی باقاعدہ تصدیق اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکیشن میں کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی جن ناموں پر غورکرے گی ان میں سردار احمد نواز سکھیرا اور نوید اکرم چیمہ (پی ٹی آئی اتحاد)، جبکہ احمد چیمہ اور محسن رضا نقوی (پی ڈی ایم) کے نام شامل ہیں۔
آئین میں بتائے گئے طر یق کار کے مطابق طرفین کی طرف سے ایک بار نام تجویز کرنے کے بعد ان میں تبدیلی کا ذکر نہیں ہے، جس سے تبدیل شدہ نام نیا تنازع کھڑا کرسکتے ہیں۔
نام تبدیل کیے جانے کی آئینی و قانونی حیثیت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد تسلیم کرتے ہیںکہ آئین بڑا واضح ہے، جو نام ایک بارگورنر کو بھیج دیے گئے ہیں ان میںتبدیلی کیسے ہوسکتی ہے اور اگر کسی فریق نے یہ نام تبدیل کیے بھی ہیں تو ضروری نہیں کہ الیکشن کمیشن یہ معاملہ سامنے آنے پر اسے تسلیم کرے، کیونکہ الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت فرائض انجام دینے ہیں۔ ادھر پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوا کہ پی ڈی ایم اراکین تبدیل شدہ نام پر اعتراض اٹھائیں گے اور اسے تسلیم نہیں کریں گے، ایسی صورت میں حتمی فیصلے کیلئے یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس ہی جاتا دکھائی دے رہا ہے۔