امت رپورٹ :
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سینئر وکیل عبداللطیف آفریدی کے قتل پر جہاں وکلا برادری اور سیاسی و سماجی کارکن غمزدہ ہیں۔ وہیں عبداللطیف آفریدی کے خاندان کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ معاملے کو خوش اسلوبی اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل نہ کیا گیا تو مزید خون خرابے کا خدشہ ہے کہ اسی برس سے جاری اس تنازعے کے دوران خاندان کے کئی افراد مارے جا چکے ہیں۔ اس وقت بھی حالیہ قتل پر قوم پرست رہنما اکٹھے تو ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ تنازعے کو ختم کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سینئر قانون دان عبداللطیف آفریدی خاندانی تنازعے کے سبب جان سے گئے۔ خیبرپختون میں خاندان کی باہمی دشمنیاں نسل در نسل چلتی ہیں اور تنازعے میں اکثر نوجوان نسل ان بزرگوں کو بھی نشانہ بناتی ہے۔ جو اس خاندان میں بڑے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ براہ راست اس تنازعے میں شامل بھی نہیں ہوتے۔ واضح رہے کہ 23 دسمبر کو میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ اے ٹی سی جج آفتاب آفریدی سمیت خواتین کے قتل کے ملزمان عبداللطیف آفریدی اور دیگر کو صوابی کی عدالت نمبر 4 کے جج عابد زمان نے عدم ثبوت پر بری کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس فیصلے سے مقتولین کے خاندان کو شدید صدمہ پہنچا۔ چونکہ مقتولین کے خاندان میں بھی وکلا موجود ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی تگ و دو جاری رکھی۔ جس کی ایک کڑی ان کا 14 جنوری کو پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنا بھی تھا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ تمام تر ثبوتوں اور ملزمان کے اعتراف جرم کے باوجود ایڈیشنل جج صوابی عابد زمان نے شہید سیشن جج، ان کی بیوی، بہو اور ایک سالہ پوتے کے قاتلوں کو بری کردیا۔ جو پاکستان کی تاریخ میں ایک حیران کن اور افسوسناک فیصلہ ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ اس فیصلے پر سوموٹو ایکشن لے کر فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور ایڈیشنل سیشن جج صوابی عابد زمان کیخلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ذرائع کے مطابق اس ضمن میں ایک بات اہمیت کی حامل ہے کہ نہ صرف ضلع خیبر اور قبائلی اضلاع میں بلکہ صوبہ بھر کی سطح پر بھی کسی نے اس خاندان کے درمیان خاندانی تنازعے کی آگ بجھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اور ابھی بھی مشران اور قوم پرست رہنما اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔
قوم پرست رہنما حالیہ قتل پر بھی اکٹھے ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ اس قتل پر اکٹھے ہو گئے ہیں۔ لیکن اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر تنازعہ کوش اسلوبی سے حل نہ کیا گیا تو مزید خون خرابے کا خدشہ ہے کہ خاندان میں تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ادھر عبداللطیف آفریدی کے صاحبزادے دانش آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے انسانی حقوق کیلئے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ وہ بے گناہ تھے۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والا خلا مدتوں پُر نہیں ہو گا۔ بار رومز کے اندر اس طرح کے واقعات پیش آنا وکلا، عدلیہ اور ریاست کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی جگہ نہیں رہی جہاں پر انسان محفوظ ہو۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔ جس سے قوم میں ایک بار پھر تشویش پائی جاتی ہے۔ لہذا مقتدر حلقے ملک پر رحم کریں اور شہریوں کے تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کریں ۔
دوسری جانب سینئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر عبداللطیف آفریدی کے قتل کے خلاف مسلسل تیسرے روز بھی وکلا نے پشاور ہائیکورٹ سمیت ماتحت عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور کوئی بھی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ ہڑتال کی کال خیبرپختون بار کونسل اور پشاور ہائیکورٹ بار نے دی تھی۔ وکلا کی ہڑتال کے باعث عدالتی امور بھی متاثر ہوئے اور کیسوں کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔ جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے کیسز کی پیروی کے لیے آنے والے سائلین کو واپس لوٹنا پڑا۔
وکلا کی ہڑتال پر سائلین کا کہنا تھا کہ تین روزہ ہڑتال کرکے جیلوں میں بند قیدیوں و حوالاتیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ وہ دور دراز علاقوں سے بھاری کرایہ خرچ کرکے عدالت پہنچتے ہیں۔ لیکن وکلا کی ہڑتال کے باعث واپس لوٹنا پرتا ہے۔
سائلین نے حکومت اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ وکلا اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں۔ تاکہ قیمتی جانیں محفوظ ہوں اوراس طرح کی ہڑتالوں کی نوبت بھی نہ آئے۔ واضح رہے کہ وکلا نے عبداللطیف آفریدی کے قتل کے خلاف عدالتوں سے تین روزہ بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ وکلا کا کہنا تھا کہ پشاور بار میں سینئر وکیل کے قتل میں ملوث عناصر کو سخت سزا ملنی چاہیے اور ایسے عناصر کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔