ندیم محمود :
نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان اپنی موت تک مقتول بیٹے کا کیس پورے عزم کے ساتھ لڑتے رہے۔ بستر مرگ پر بھی انہوں نے خاندان کو یہی وصیت کی تھی کہ نقیب کے خون کا سودا نہ کیا جائے۔ مقتول کے ورثا نے والد کی اس وصیت پر پوری طرح عمل کیا اور آج بھی اس پر کاربند ہیں۔ عدالتی فیصلے کے باوجود ورثا نے انصاف کے حصول تک قانونی جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ جبکہ مقتول کی قانونی ٹیم کے بقول راؤ انور کی بریت سے متعلق انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پیر کے روز نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر سترہ ملزمان کو بری کردیا۔ اس کیس کی سماعت مکمل کرنے میں پانچ برس لگے۔ مختصر عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن راؤ انوار اور دیگر ملزمان کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔
مقتول نقیب اللہ کی فیملی کے ایک قریبی دوست نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب قریباً ایک ہفتہ قبل چودہ جنوری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تو تب ہی وکلا سمیت خاندان کے دیگر افراد کو اندازہ ہوگیا تھاکہ فیصلہ راؤ انوار کے حق میں آنے والاہے۔ کیونکہ اس کیس میں جس طرح تاخیری حربے استعمال اور استغاثہ کی جانب سے کیس کو کمزور کیا گیا۔ اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا آنے والاہے۔
خاص طور پر راؤ انوار کے خلاف بیانات دینے والے گواہان ایک ایک کرکے منحرف ہونا شروع ہوئے تو تصویر واضح ہوگئی تھی۔ اسی لئے فیصلہ سنائے جانے سے ایک روز قبل نقیب اللہ کے بھائی عالم شیر اور دیگر نے کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ اور پریس کانفرنس بھی کی، تاکہ استغاثہ کی جانب سے کیس کمزور کرنے کے حربوں سے عوام کو آگاہ کیا جاسکے۔ مقتول کی فیملی کے قریبی دوست کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2018ء میں ہونے والی انکوائری میں خود راؤ انوار کے پیٹی بند افسر نے مقابلے کو جعلی ثابت کردیا تھا لیکن اس کے باوجود انصاف کا خون کیا گیا۔
یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو تیرہ جنوری 2018ء میں ایک مشکوک پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد راؤ انوار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جعلی مقابلے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ نقیب اللہ کے قتل پر بڑے پیمانے پر مظاہروں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی مؤثر کمپین نے حکام کو قتل کی تحقیقات کرنے پر مجبور کیا۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی کی قیادت میں بننے والی ٹیم نے اپنی تحقیقات میں قرار دیا تھا کہ نقیب اللہ سے پولیس مقابلہ طے شدہ تھا۔ ساتھ ہی انکوائری کمیٹی نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ 2011ء سے 2018ء کے درمیان کراچی میں انوار راؤ اور ان کی ٹیم نے 192 پولیس مقابلوں میں 444 افراد کو ہلاک کیا۔
خاندان کے قریبی دوست نے بتایا کہ راؤ انوار کی بریت سے متعلق فیصلے کے بعد ان کی نقیب اللہ کے بھائی عالم شیر سے بات ہوئی ہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ عدالتی فیصلے نے مقتول کے ورثا کو مایوس کیا ہے اور وہ پریشان ہیں، لیکن اس کے باوجود ورثا کو یقین ہے کہ اعلیٰ عدالتوں سے انہیں انصاف ملے گا۔ اسی لئے انہوں نے انصاف کے حصول تک قانونی جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خود عالم شیر کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’’میرے والد اپنے انتقال سے پہلے یہی کہتے رہے تھے کہ وہ اپنے بیٹے کی موت پر سودے بازی نہیں کریں گے۔ ہم پانچ سال کی جدوجہد کے بعد اس عزم پر قائم ہیں۔‘‘
مقتول نقیب اللہ کے والد محمد خان دو دسمبر 2019ء کو کینسر کے خلاف لڑتے ہوئے دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔مرحوم کو مقتول بیٹے نقیب اللہ کے پہلو میں دفن کیا گیا تھا۔ محمد خان قریباً پانچ ماہ تک راولپنڈی کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال (سی ایم ایچ) میں داخل رہے۔ تمام تر پرکشش پیشکشوں کے باوجود وہ زندگی کی آخری سانس تک بیٹے کے خون کا سودا نہ کرنے کے موقف پر چٹان کی طرح قائم رہے اور ساتھ ہی انصاف کے حصول کے لئے قانونی جدوجہد بھی جاری رکھی۔
کیس کے سلسلے میں وہ جب بھی کراچی آیا کرتے تو گلشن اقبال میں مقیم اپنے ایک دیرینہ دوست کے ہاں ٹھہرتے تھے۔ محمد خان جب سی ایم ایچ راولپنڈی میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے تو تب بھی ان کے یہ دوست وہاں موجود تھے۔ اس دوست نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بستر مرگ پر محمد خان نے کہا تھا ’’مجھے اپنی زندگی کا کچھ نہیں معلوم کہ اور کتنی مہلت دیتی ہے۔ اگر دنیا میں مجھے انصاف نہیں ملا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے مقتول بیٹے کا مقدمہ پیش کروں گا۔‘‘
قریبی دوست کے بقول شروع میں نقیب قتل کیس کے حوالے سے محمد خان کو انصاف ملنے کی امید تھی اور جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو یہ امید بڑھ گئی۔ آرمی چیف سے محمد خان کی دو ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے محمد خان کو یقین دلایا تھا کہ نقیب کو انصاف دلانے میں وہ بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔ جس پر محمد خان کی ڈھارس بندھی تھی۔ لیکن پھر عدالتی کارروائی میں سست روی کے سبب ان کی یہ امید بتدریج مایوسی میں بدلنا شروع ہوگئی تھی۔ خاص طور پر جب محمد خان بیماری کی وجہ سے بستر سے لگ گئے۔ لیکن خرابی صحت کے باوجود بھی وہ کراچی جاتے رہے ۔ تاہم عدالت میں ان کا بیان ریکارڈ کرنے میں تاخیر کی جاتی رہی۔ اس صورتحال نے ان کی مایوسی کو بڑھا دیا تھا۔
پھر یہ طے ہوا کہ محمد خان کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرلیا جائے گا لیکن یہ مرحلہ بھی نہ آسکا۔ آخر کار تین دسمبر دو 2019ء کو بیان ریکارڈ کرانے کی تاریخ دی گئی۔ تاہم اس تاریخ سے ایک روز قبل محمد خان انتقال کرگئے۔ یوں اپنی آنکھوں کے سامنے انصاف ہوتا دیکھنا تو دور کی بات ہے، وہ اپنا بیان ریکارڈ کرانے کی خواہش بھی ساتھ لے گئے۔
قریبی دوست بتاتے ہیں کہ بیماری کے آخری دنوں میں مکین (جنوبی وزیرستان) سے طویل سفر کرکے کراچی آنا محمد خان کے لئے بہت مشکل ہوتا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ کم از کم ایک درجن بار اپنا بیان ریکارڈ کرانے کراچی آئے۔ لیکن بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ وہ پوچھتے تھے کہ آخر ان کا بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا جارہا؟ جس پر انہیں دلاسہ دیا جاتا کہ قانونی معاملات میں دیر سویر ہوجاتی ہے۔
قریبی دوست بتاتے ہیں ’’ایک روز مجھے فون آیا کہ اسپتال میں محمد خان کی طبیعت مزید بگڑ گئی ہے تو میں 27 نومبر 2019ء کو راولپنڈی پہنچ گیا۔ سی ایم ایچ میں میری ان سے تین ملاقاتیں ہوئیں۔ اس موقع پر محمد خان نے کہا ’’لگتا ہے میرا آخری وقت قریب آگیا ہے۔ لیکن میں سرخرو ہوکر جارہا ہوں کہ اپنے خون کا سودا نہیں کیا۔ کیونکہ یہ خون پوری قوم کی امانت ہے، جس نے اس کیس میں ہر مرحلے پر میرا ساتھ دیا۔ ملک کے بائیس کروڑ عوام نے میرے غم کو اپناغم سمجھا۔ ایسے میں اپنے بیٹے کا خون بیچ کر میں کیسے غداری کرسکتا ہوں۔ یہی وصیت میں نے اپنی فیملی کو بھی کی ہے۔ ‘‘