عمران خان :
ایف آئی اے کی جعلی اور مضر صحت ادویات مافیا کے خلاف تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے۔ سرکاری اداروں میں سرگرم کرپٹ مافیا کی آشیر باد سے چائے اور گنے کا جوس فروخت کرنے والوں نے بھی اپنے کیبنوں کا دھندہ کم ہونے کے بعد ان میں میڈیکل اسٹورز کھول لئے اور اب وہ ماہانہ لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے کراچی میں میڈیکل اسٹوروں پر چھاپوں میں گرفتار ہونے والے ملزمان سے تفتیش میں معلوم ہوا کہ صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹرز کی جانب سے ان سے بھاری رشوت وصول کی جا تی ہے، جس کو عرف عام میں جرمانے کا نام دیا جاتا ہے۔ جبکہ جرمانے کے نام پر وصول کی جانے والی یہ رقوم کسی بھی صوبائی اور وفاقی سرکاری خزانے کے بجائے براہ راست ڈرگ انسپکٹرز اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام کی جیب میں جاتی ہے۔
جرمانے کے نام پر وصول کی جانے والی اس رشوت کے عوض میڈیکل اسٹور مالکان کھلے عام شہریوں کو معروف فارما سوٹیکل کمپنیوں کی جعلی، مضر صحت ادویات کے ساتھ ساتھ اسمگل ہوکر آنے والی غیر رجسٹرڈ ادویات فروخت کرتے ہیں۔ انسان دشمن دھندے میں نئے حقائق سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ ان دستاویزات کی چھان بین تک وسیع کردیا، جن کے لئے فارمیسی کی تعلیم دینے والے اداروں سے شروع ہوکر صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ اور ضلعی ہیلتھ آفیسرز کے دفاتر تک ایک پوری مافیا سرگرم ہے۔
موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ہفتے ایف آئی اے نے ڈریپ کے ساتھ مشترکہ کارروائی میں معروف فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جعلی ادویات، اسمگل شدہ اور غیر معیاری ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں جناح اسپتال کے سامنے قائم 4 میڈیکل اسٹوروں پر چھاپے مار کر متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ملزمان میں ملک نوید، اللہ دتہ، عبدالرشید اور عاصم رشید شامل ہیں۔ مذکورہ میڈیکل اسٹوروں سے بھاری تعداد میں اسمگل شدہ غیر رجسٹرڈ ادویات مزید تعداد میں برآمد کرکے 4 مقدمات درج کر لیے گئے، جن سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
اس ضمن میں ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس معروف فارما سوٹیکل کمپنی بوش فارما (Bosch Pharma) اور دیگر کی جعلی ادویات سپلائی اور فروخت کرنے کا انکشاف ہونے پر ڈریپ کی جانب سے ایف آئی اے کے ساتھ کراچی کے علاقے میں جناح اسپتال کے سامنے قائم میڈیکل اسٹوروں پر چھاپے مار کر ادویات قبضے میں لی گئی تھیں۔ جس کے بعد ان ادویات کی جانچ پڑتال کے لئے ان کے نمونے لیبارٹری ارسال کیے گئے تھے۔ بعد ازاں لیبارٹری رپورٹوں میں مذکورہ ادویات جعلی اور مضر صحت ثابت ہوئیں، جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے کراچی کے ایف آئی ڈیز کی جانب سے اس پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ ڈریپ ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے حکام کو ارسال کی گئیں جہاں متعلقہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کو شوکاز نوٹس ارسال کرکے جواب طلب کیے گئے۔ جس میں ان کمپنیوں نے ان ادویات سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
مذکورہ میڈیکل اسٹوروں کے مالکان اور ان افراد کے بیانات قلمبند کئے گئے جن کے نام پر ان میڈیکل اسٹوروں کے لائسنس حاصل کئے گئے، کیونکہ اکثر ایسے واقعات میں جن فارماسسٹ کی اسناد پر صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ سے میڈیکل اسٹوروں کے لائسنس حاصل کئے جاتے ہیں ان کی صرف اسناد استعمال ہوتی ہیں جبکہ سرمایہ کاری کرنے والے اصل مالکان کا طبی شعبے سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ اسناد بھاری رشوت دے کر لی جاتی ہیں، جس کا قلع قمع بھی ضروری ہے۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ اس معاملے پر کراچی کے ایف آئی ڈیز کی رپورٹوں کی روشنی میں ڈریپ کے بورڈ کی جانب سے ایف آئی اے کے ذریعے اس مافیا کے خلاف مزید کارروائی کی اجازت دی گئی، تاکہ جعلی ادویات سپلائی کرنے والوں سے لے کر فروخت کرنے والوں اور تیار کرنے والوں کا سراغ لگا کر ان کو پکڑا جاسکے۔ اس اجازت نامے کی روشنی میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی میں ایک ٹیم قائم کی گئی جس میں تفتیشی افسران حبیب الرحمن، امین، رباب اور دیگر کو شامل کیا گیا۔ جبکہ ڈریپ کی جانب سے ایف آئی ڈی حرا بھٹو اور شعیب مغل کو شامل کیا گیا، جنہوں نے اہلکاروں کے ساتھ جناح اسپتال اور کارڈیو کے قریب قائم ان چاروں میڈیکل اسٹوروں پر کارروائی کر کے ملوث ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
اس دوران تلاشی کے نتیجے میں بوش فارما سمیت دیگر معروف کمپنیوں کی مزید مشکوک ادویات بر آمد ہوئیں اور ساتھ ہی اسمگل شدہ اور غیر رجسٹرڈ ادویات بھی ملیں جنہیں ضبط کرلیا گیا۔ اس کارروائی کے بعد اینٹی کرپشن سرکل ایف آئی اے کراچی میں 4 علیحدہ مقدمات درج کر لئے گئے ہیں اور میڈیکل اسٹور چلانے والوں سے یہ ادویات سپلائی کرنے والوں کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول چاروں مقدمات میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسران نے ان میڈیکل اسٹوروں کو جاری ہونے والے لائسنس اور ان کو ادویات سپلائی کرنے والے افراد کے کوائف حاصل کر لئے ہیں۔ جس میں انکشاف ہوا ہے کہ میڈیکل اسٹوروں کے مالکان نے فارمسی کرنے والے جن شہریوں کے نام پر لائسنس بنوائے وہ کبھی ان کے اسٹوروں پر آئے ہی نہیں، بلکہ اکثر نے تو انہیں دیکھا بھی نہیں ہے۔ یہ تمام دستاویزات ان کو ڈرگ ڈپارٹمنٹ سے بنواکر دینے کے لئے ریحان نامی ایک ایجنٹ نے ذمہ لیا، جس نے لاکھوں روپے کے عوض لائسنس لے کر دیئے۔
ایف آئی اے کی جانب سے ریحان کو تلاش کرنے کے ساتھ ہی لائسنس جاری کرنے والی اتھارٹی یعنی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ساؤتھ کو بھی مراسلے لکھ دیئے ہیں، تاکہ ان سے وہ تمام دستاویزات منگوا کر چھان بین کر سکیں۔ جو کہ میڈیکل اسٹوروں کے مالکان کی جانب سے جمع کروائی گئیں۔
جبکہ ان کے تصدیقی عمل کے حوالے سے صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ضلعی افسران سے بھی پوچھ گچھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن کی ذمے داری ہے کہ وہ میڈیکل اسٹور کا لائسنس لینے والے افراد کی دکانوں پر جاکر تصدیق کریں کہ ان کے پاس کولڈ اسٹوریج سے لے کر سائز اور فارمیسی کی تمام سہولتیں موجود ہیں یا نہیں۔ تاہم یہ عمل رشوت کے عوض طے کرلیا جاتا ہے۔ دو میڈیکل اسٹور والوں نے تفتیش میں انکشاف کیا کہ وہ کچھ سال قبل تک ان کیبنوں میں چائے اور گنے کا جوس بنا کر بیچتے تھے۔ پھر ان کا دھندہ کم ہو گیا تو ان کو ریحان نامی ایجنٹ نے مشورہ دیا کہ اپنا میڈیکل اسٹور اسی کیبن میں کھول لیں، جس کے بعد تمام مراحل اسی نے طے کروائے ۔