نواز طاہر :
پنجاب کی نگران حکومت مکمل تشکیل پانے سے پہلے ہی تحریکِ انصاف کے اعصاب پر سوار ہوگئی۔ پی ٹی آئی نے نگران وزیراعلیٰ اور الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج شروع کرنے کے ساتھ ساتھ سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا بھی شروع کردی ہیں۔ جبکہ اسی الیکشن کمیشن کے زیر انتظام الیکشن سے بائیکاٹ بھی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اورالیکشن میں مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں یہ احتجاج جاری رکھا جائے گا۔ مظاہرے میں گورنر پنجاب کو بھی ٹارگٹ بنایا گیا ہے۔ جبکہ گورنر نے اسمبلی کے آخری ایام میں پی ٹی آئی کی جانب سے منظور کیے جانے والے مسوداتِ قانون پر دستخط کردیئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز (منگل کو) پی ٹی آئی پنجاب نے لاہور میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس میں الیکشن کمیشن اور نگران وزیر اعلیٰ کے خلاف شدید نعرہ بازی کی گئی اور سخت زبان استعمال کی گئی۔ اس مظاہرے میں گیارہ سو سے بارہ سو افراد شریک تھے۔
پولیس نے الیکشن کمیشن کے صوبائی سیکریٹریٹ میں سیکیورٹی انتظام کر رکھا تھا۔ جب سیکورٹی اہلکار کسی اشتعال میں نہیں آئے تو مظاہرین الیکشن کمیشن کے دفتر سے نصف فرلانگ کے فاصلے پر پوسٹ ماسٹر جنرل چوک لوئر مال پر منتقل ہر گئے۔ جہاں ان کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام ہوگیا۔ اس مظاہرے میں موجود پی ٹی آئی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج تو جاری رہے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم جس الیکشن کمیشن کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اسی کے زیر انتظام ہونے والے الیکشن کا بائیکاٹ بھی کریں۔
مظاہرے میں موجود پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ بنانا پی ٹی آئی کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ اگر الیکشن کے بعد پارٹی کو مطلوبہ (ان کے مطابق واضح اکثریت) نتائج نہ ملے تو یہ احتجاج جاری رکھا جائے گا۔ ان ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ ہی ایک خاص نکتے ’’دبائو‘‘ کے پیشِ نظر کیا جارہا ہے اور ساتھ ساتھ ہی ساتھ نگران وزیراعلیٰ کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ اس اعلان اور نامزدگی کے وقت اتحادی جماعت مسلم لیگ ’ق‘ کے دو اہم رہنما (چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے چوہدری مونس الٰہی) نے پی ٹی آئی کے بتایا تھا کہ احد چیمہ کے مقابلے میں محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ کیلیے زیادہ ’سوٹ‘ کرتے ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق احتجاج جاری رکھنا باقاعدہ پالیسی اور عملی طور پر انتخابی مہم ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس احتجاج کے بعد پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نے عمران خان کو رپورٹ کیا اور پھر شہر کے مختلف حصوں میں مقامی طور پر ٹولیوں کی صورت میں ہونے والی نعرہ بازی میں شامل ہوگئی۔ جبکہ عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسی احتجاج کو پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور حماد اظہر نے ’پورے شہر لاہور کا فیصلہ ‘ قرار دیا اور کہا کہ لاہور نے محسن رضا نقوی کی نگران وزیراعلیٰ تقرری کو رد کر دیا ہے۔
انہوں الیکشن کمیشن کے بارے میں سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری بات نہ سنی تو احتجاج اور ردِ عمل ان کے اہلِ خانہ تک جائے گا۔ یہی پیغام انہوں نے صوبائی انتظامی افسروںکو بھی دیا اور کہا کہ جو کچھ گزشتہ سال پچیس مئی کے احتجاج کے دوران پولیس افسروں اور ملازمین کے ساتھ کیا گیا تھا۔ حکومت میں آکر ان سب کا پھر سے احتساب کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے جس محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا ہے۔ وہ ان افسروں کو دوبارہ تعینات کر رہے ہیں۔ جو پی ٹی آئی کے گزشتہ سال پچیس مئی کے احتجاج کے وقت تعینات تھے اور یہ ہمیں قبول نہیں۔ ان افسروں کی تعینات رکوانے کیلیے الیکشن کمیشن کو درخواست بھی دی جائے گی۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نگران وزیراعلیٰ بننے کے اگلے روز ہی وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی کو ایوان وزیر اعلیٰ سے واپس پنجاب اسمبلی بھیج دیا گیا تھا اور وفاقی حکومت کے احکامات کی پرواہ نہ کرنے والے سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کو محکمہ ایس اینڈ جی اے رپورٹ کرنے کی ہداہت کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے لاہور میں تعیناتی کے منتظر سینئر افسر بلال صدیق کمیانہ کو نیا سی سی پی او تعینات کر دیا گیا تھا۔ جبکہ وفاقی حکومت نے آئی جی پنجاب عامر ذوالفقار کو تبدیل کردیا ہے اور تاحال مزید کسی افسر کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ جبکہ وزارتِ اعلیٰ سے سبکدوشی سے پہلے چودھری پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی سفارش پر کم و بیش ہر ضلعے میں بڑے پیمانے پر تقرریاں و تبادلے کیے تھے۔
نگران وزیراعلیٰ کے ذرائع کے مطابق پرنسپل سیکریٹری کا تبادلہ یا آئی جی کا تبادلہ الیکشن کمیشن کی گائیڈ لائن سے متصادم نہیں ہیں اور یہ تقرریاں خالص میرٹ پر کی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے نگران حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے جو گائیڈ لائن دی ہے۔ وہ بھی پوری طرح آبزرو کی جائے گی۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے احتجاج میں تشدد کا عنصر آنے کی صورت میں نمٹنے کا معاملہ ہے تو سیکورٹی فورسز قانون کے مطابق ہی اپنے طریقِ کار کے مطابق اسے دیکھیں گی۔
نگران حکومت سیاسی نہیں نہ سیاسی انتقام کا سوچا جا سکتا ہے۔ پُر امن الیکشن کا انعقاد اور اقتدار کی منتقلی تک امن او مان برقرارکھنا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جو قانون کے تحت ادا کی جائے گی اور نگران حکومت کی غیر جانبداری واضح طور پر دکھائی دے گی۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اس احتجاج کے ذریعے ان خاص تعیناتیوں کو بچانا چاہتی ہے۔ جو انتخابی سپورٹ کے پیشِ نظر کی گئی۔
دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران کابینہ (یہ سطور لکھے جانے تک ابھی کسی وزیر نے حلف نہیں اٹھایا تھا) ان تعیناتیوں کا جائزہ لے سکتی ہے اور بھلے الیکشن کمیشن کی مشاورت سے ہی سہی شفاف الیکشن یقینی بنانے کیلیے ٹرانسفر پوسٹنگ کر سکتی ہے۔ جبکہ اس کی شدید ضرورت بھی ہے۔