جمشید کوارٹر میں قادیانی ارتداد خانہ کے مینار مسمار کر دیے گئے۔فائل فوٹو
 جمشید کوارٹر میں قادیانی ارتداد خانہ کے مینار مسمار کر دیے گئے۔فائل فوٹو

قادیانیوں کیخلاف تین کیسزاہم مرحلے میں داخل

سید علی حسن :
کراچی میں دو قادیانی ارتداد خانوں پر شعائر اسلام کا استعمال کرنے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے سے متعلق تین کیسز اہم مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ متعلقہ عدالتوں نے مقدمات میں نامزد مجموعی طور پر8 قادیانی ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر17 سے زائد گواہوں کے آئندہ ریکارڈ ہونے والے بیانات ملزمان کو سزائیں دلانے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ادھر جمشید کوارٹر کے علاقے میں واقع قادیانی ارتداد خانے کے میناروں کو نامعلوم افراد نے مسمار کردیا ہے۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ مارٹن کوارٹر نزد یادگار فش کے قریب پلاٹ نمبر 31 پر قادیانیوں کا ارتداد خانہ واقع ہے۔ جہاں انہوں نے مسجد سے مشابہت رکھتے ہوئے مینار بھی تعمیر کئے تھے۔ 18 جنوری کو نامعلوم افراد سیڑھی کی مدد سے ارتداد خانے کی چھت پر پہنچے اور میناروں کو مسمار کردیا۔ جس پر احمدیہ کمیونٹی کی جانب سے نامعلوم افراد کے خلاف تھانہ جمشید کوارٹر میں مقدمہ الزام نمبر 29/2023 درج کرایا گیا ہے۔

مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ 18 جنوری 2023ء کو 10 سے 12 نامعلوم افراد عبادت گاہ کے باہر جمع ہوئے۔ جنہوں نے شور شرابہ کیا اور نعرے بازی کی۔ جبکہ چند نامعلوم افراد نے دیوار پر چڑھ کر مینار مسمار کردیئے اور عمارت کو بھی نقصان پہنچایا۔ مقدمہ فساد پھیلانے اور نقصان پہنچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں مذکورہ قادیانی ارتداد خانے پر شعائر اسلام کا استعمال کرنے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا مقدمہ پہلے سے ہی تھانہ جمشید کوارٹر میں درج ہے۔ مذکورہ مقدمہ الزام نمبر 527/2022 تھانہ جمشید کوارٹر میں مدعی مقدمہ محمد احمد کی مدعیت میں 26 ستمبر 2022ء کو درج کیا گیا تھا۔

مدعی مقدمہ محمد احمد نے اپنی شکایت میں بیان کیا کہ ’میں مارٹن کوارٹر کا رہائشی ہوں۔ مارٹن کوارٹر نزد یادگار فش کے قریب قادیانیوں نے شعائر اسلام کا غیر آئینی استعمال کرتے ہوئے پلاٹ نمبر 31 نزد مارٹن کوارٹر کراچی ایسٹ پر اپنا غیر قانونی مرکز بنا رکھا ہے۔ جہاں پر امتناع قادیانی آرڈیننس 1984 کے خلاف شعائر اسلام کو استعمال کرتے ہوئے مینار بنائے گئے ہیں۔ جو مسلمانوں کی مسجد سے مشابہت رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے کئی مسلمان بھائی اس جگہ کو مسجد سمجھ کر دھوکہ کھاکر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔

یہاں موجود قادیانی طبقہ مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ 1974 میں قادیانیوں کو آئینی طور پر کافر قرار دیا جاچکا ہے اور 1984 میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت قادیانیوں کیلئے اسلام کی تبلیغ، اسلامی اصطلاحات اور شعائر اسلام کا استعمال سخت ترین جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ لیکن یہاں ایسا کیا جا رہا ہے اور علاقائی سطح پر نقص امن کے طور پر ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ چونکہ اطراف کی تمام آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ان میں اس معاملے پر سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لہذا قادیانیوں کے اس غیر اسلامی اور غیر قانونی عمل اور دیگر سرگرمیوں کے پیش نظر نقص امن کو سامنے رکھتے ہوئے فی الفور اس جگہ کو سیل کرنے احکامات جاری کیے جائیں اور قادیانیوں کی اس عمارت پر موجود اسلامی نشانیاں ختم کی جائیں۔

انتظامی امور کے ذمہ داران اور اراکین کمیٹی کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی اور 298 سی کے تحت مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کی جائے۔ مذکورہ مقدمہ میں نامزد 6 قادیانی ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ ملزمان میں نعیم اللہ، ظہیر احمد، نصیر احمد، یاسر، ظفر اور شہزاد شامل ہیں۔ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں ہونے والی گزشتہ سماعت پر عدالت کے استفسار پر ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔ جس پر عدالت نے تفتیشی افسر اور گواہوں کو 27 جنوری کو طلب کرلیا ہے۔ چالان میں مدعی مقدمہ، تفتیشی افسر سمیت مجموعی طور پر 9 گواہان کو شامل کیا گیا ہے۔ جن کے بیانات ریکارڈ کئے جائیں گے۔

جمشید کوارٹر تھانے میں درج مقدمہ میں نامزد 6 ملزمان اور ان کے وکیل کے خلاف تھانہ سٹی کورٹ میں بھی مقدمہ الزام نمبر 172/2022 درج ہے۔ مذکورہ مقدمہ کے مطابق مدعی مقدمہ نے شکایت درج کراتے ہوئے بیان دیا کہ ’شعائر اسلام استعمال کرنے پر قادیانیوں کے خلاف تھانہ جمشید کوارٹر ز میں درج مقدمہ کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں ہوئی۔ جہاں ملزمان ظہیر، نصیر، یاسر، شہزاد، ظفر اور نعیم اپنے وکیل کے ساتھ پیش ہوئے جو قادیانی ہیں۔

انہوں نے زیر دفعہ 249 سی آر پی سی کے تحت درخواست جمع کرائی جو میں نے وصول کرنے کے بعد دیکھا کہ اس پر ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ اور ’ھو الناصر‘ لکھا ہوا ہے۔ جبکہ دوسرے کاغذ پر بھی شعائر اسلام لکھے ہوئے تھے۔ آئین پاکستان کی دفعہ آرٹیکل (3) 260 تعزیرات پاکستان کی دفعہ 289 بی اور سی کے تحت قادیانی شعائر اسلام استعمال نہیں کر سکتے۔ علی احمد طارق نے اپنے نام کیساتھ سید کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لہذا ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ مذکورہ مقدمہ کی گزشتہ ہونے والی سماعت پر ملزمان پر فر جرم عائد کردی گئی ہے اور متعلقہ عدالت نے 7 فروری 2023 کو تفتیشی افسر کو گواہوں کو طلب کرلیا ہے۔

اسی طرح صدر میں واقع قادیانی ارتداد خانے پر شعائر اسلام کا استعمال اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا مقدمہ الزام نمبر 913/2022 عبدالقادر پٹیل اشرفی کی مدعیت میں تھانہ پریڈی میں درج ہے۔ مدعی نے اپنے بیان میں بتایا کہ ’میں پریڈی اسٹریٹ میں ملازمت کرتا ہوں اور ختم نبوت پر قرآن و حدیث کے عین مطابق ایمان رکھتا ہوں۔ جبکہ آئین پاکستان کا مکمل احترام کرتا ہوں۔ آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر قانونی چارہ جوئی کا بھی حق رکھتا ہوں۔

9 اگست 2022ء بروز جمعہ دوپہر تقریبا ایک بجے تھانہ پریڈی کی حدود سے گزر رہا تھا کہ میں نے ایک عمارت کو دیکھا اور اس میں نماز پڑھنے کیلئے جانے لگا، تو پتہ چلا کہ یہ قادیانی عبادت گاہ ہے۔ میں نے اس پر علمائے کرام کو آگاہ کیا اور 11 اگست 2022ء کو متعلقہ تھانہ پریڈی میں جاکر اطلاع دی کہ قادیانیوں نے مسلمانوں کے دینی جذبات کو مجروح کرنے کیلئے بدنیتی سے اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف نامعلوم ملکیتی پلاٹ 19، بچو بھائی اسٹریٹ عبداللہ ہارون روڈ نزد دارالاسلام مسجد صدر کراچی پر غیر قانونی طریقے سے گنبد، مینار اور محراب نمادروازے والی عمارت بنارکھی ہے۔ جو کسی بھی دیکھنے والے کو باآسانی مسجد معلوم ہوتی ہے۔

قادیانی مذکورہ بالا جگہ پر مسلمانوں کی طرح عبادت کرتے اور قادیانیت کی کھلے عام ارتدادی سرگرمیاں کرتے ہیں۔ جس سے کئی سادہ لوح مسلمان دھوکہ کھا چکے ہیں اور نمازوں کے ساتھ نماز جمعہ تک ادا کرنے چلے جاتے ہیں۔ مذکورہ عبادت گاہ جن کمیٹی ممبران کے ماتحت چلائی جارہی ہے۔ ان میں صباحت احمد، سبحان اور عبدالرشید سمیت دیگر ملزمان شامل ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کی نیت سے آئین شکنی کرتے ہوئے مسجد نما عبادت گاہ بناکر اس میں مسلمانوں کی طرح عبادت کرکے اور قادیانیت کی تبلیغی سرگرمیاں کرکے بجرم دفعہ 298-B/298-C/34 کا ارتکاب کیا ہے۔

یہ دستور پاکستان 1973-74 میں کافر قرار دیئے جانے کے باوجود اپنی سرگرمیاں اسلامی لبادہ اوڑھ کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزارش ہے کہ مذکورہ ملزمان اور دیگر انتظامی کمیٹی و اراکین کے خلاف اور ناجائز عمارت کے خلاف مقدمہ کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ مذکورہ عمارت سے شعائر اسلام یعنی گنبد، مینار، محراب وغیرہ کو منہدم کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

مذکورہ مقدمہ میں 5 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم ملزمان سلیمان،عبدالرشید، ناصر اور نعیم کے کوائف نامکمل ہونے پر ان کے نام کالم نمبر دو میں لکھے گئے تھے۔ مذکورہ مقدمہ میں ایک ملزم صباحت پیش ہوتا ہے۔ جس پر عدالت نے فرد جرم عائد کردی ہے اور 4 فروری کو تفتیشی افسراور گواہوں کو طلب کرلیا ہے۔ مذکورہ مقدمہ میں 8 گواہان کو شامل کیاگیا ہے۔

قادیانی ملزمان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد اب مقدمات اہم مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس مرحلے میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونا ہیں۔ جو مختلف سماعتوں پر کئے جانے کا امکان ہے۔ تینوں مقدمات میں مجموعی طور پر17 سے زائد گواہان کو شامل کیا گیا ہے۔ جن میں پرائیویٹ اور پولیس گواہان شامل ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی مقدمہ میں گواہان کی گواہی ملزمان کو سزائیں دلانے میں اہمیت رکھتی ہیں۔ گواہان اگر درست طریقے سے بیانات ریکارڈ کروائیں اوران کے بیانات میں تضاد نہ پایا جائے تو ملزمان کو سزائیں ہوسکتی ہیں۔ اس کے لیے ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ گواہوں کے بیانات پر ہونے والی جرح کے دوران ان کی گواہی غلط ثابت نہ ہو۔