نواز طاہر :
ریاستی اداروں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے پر تحریکِ انصاف اور اس کی اتحادی مسلم لیگ ’ق‘ کے رہنمائوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جس کی ابتدا پی ٹی آئی کے اہم رہنما فواد حسین چوہدری کی گرفتاری سے ہوچکی ہے اور عمران خان سے لے کر پارٹی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر اور میاں اسلم اقبال سمیت متحرک کارکنوں تک کی گرفتاری کے امکانات ہیں۔
خیال کیا جارہا ہے کہ عمران خان کو کسی وقت بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔ ان کی زمان پارک میں رہائش گاہ کے باہر پولیس نفری کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ’ق‘ کے قائدین کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہونے والا ہے۔ تاہم یہ طے ہونا باقی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور ان کے صاحزادے مونس الٰہی سمیت کس کس رہنما اور کارکن کی گرفتاری ہوگی۔ البتہ چوہدری شجاعت حسین کے چھوٹے بھائی چودھری وجاہت حسین اور ان کے بیٹے موسیٰ الٰہی کے خلاف لاہور میں مقدمہ درج کیا جا چکا اور کسی وقت بھی ان کی گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔
اس مقدمے کی ایف آئی آر سر بمہر کردی گئی ہے۔ چوہدری وجاہت حسین گزشتہ سال عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران بڑے بھائی چوہدری شجاعت حسین کے بجائے کزن چوہدری پرویز الٰہی کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اور ’ق‘ لیگ کا اقتدار ختم ہونے کے بعد اس سطح کا یہ پہلا مقدمہ اور فواد چوہدری کی پہلی گرفتاری ہے۔ جس سے پی ٹی آئی اور ’ق‘ لیگ کے حلقوں میں تشویش اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
واضح رہے کہ بدھ کو علی الصبح اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد حسین چودھری کیخلاف الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ جس کے بعد انہیں لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔ ابتدا میں ان کی گرفتاری کو اہلِ خانہ کی طرف سے اغوا قرار دیا گیا۔ تاہم پولیس نے ان کے خلاف درج مقدمہ کی ایف آئی آر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی اور ساتھ ہی لاہور سے تھانہ کوہسار منتقل کرنے کیلیے مقامی مجسٹریٹ سے راہداری ریمانڈ کیلیے پیش کردیا۔ جہاں پی ٹی آئی کے وکلا نے درشت لہجہ اختیار کیا۔ تاہم عدالتی حکم پر طبی معائنے کے بعد راہداری ریمانڈ جاری کر دیا گیا اور بعد میں انہیں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔
فواد چوہدری کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کیلیے ان کی آبائی رہائش گاہ زمان پارک پر پولیس کے محاصرے اور کسی وقت بھی گرفتاری کی اطلاعات پر کارکنوں نے وہاں جمع ہوکر نعرہ بازی شروع کردی تھی۔ جو بدھ کی صبح تک جاری رہی۔ لیکن اس وقت تک پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تعداد ایک سو سے بھی کم ہوگئی تھی۔ دو ماہ سے زائد عرصے سے عمران خان کی سیکورٹی کیلیے تعینات فورس میں بھی کچھ اضافہ ہوگیا تھا۔ لیکن اس کی ڈیوٹی کی نوعیت تبدیل ہوچکی۔
دوسری جانب سرکاری ذرائع کسی بھی گرفتاری اور اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تصدیق نہیں کر رہے۔ البتہ مختلف کارنرز سے مزید گرفتاریوں کی شنید ہے۔ جن میں پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر، میاں اسلم اقبال، بھی شامل ہیں۔ اسی طرح سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی کو بھی گرفتار کیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا جارہا کہ انہیں کس الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مونس الٰہی ممکنہ طور پر ایف آئی کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ جہاں ان کے مبینہ فرنٹ مین انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کی ممکنہ گرفتاری کے بارے میں محض قیاس آرائی اور خوف پھیلانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی بنا پر ان کے خلاف مقدمہ بنایا جاسکے۔
اسی دوران چودھری شجاعت حسین کے چھوٹے بھائی چودھری وجاہت حسین اور ان کے بیٹے موسیٰ الٰہی کے خلاف لاہور کے تھانہ غالب مارکیٹ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت مختلف دفعات کے تحت منگل چوبیس جنوری کو درج ہونے والا مقدمہ سربمہر کر دیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ مقامی ٹرانسپورٹر محمد بلال کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ جس کے مطابق دونوں باپ بیٹے نے ارکان اسمبلی کو ڈرانے دھمکانے کی منصوبہ بندی کی اور پھر اس منصوبہ بندی کے مطابق ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے سرحدی علاقے کوٹلہ ارب علی خان میں عملدرآمد کرتے ہوئے فائرنگ اور زد و کوب کیا۔
اسی الزام میں ان دونوں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق اعلیٰ حکام کی ہدایت پر یہ ایف آئی آر سیل کی گئی ہے اور معاملے میں کوئی انفارمیشن شیئر کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس حوالے سے کسی پیش رفت سے پہلے اعلیٰ حکام کی منظوری لی جائے گی۔ ان ذرائع کے بقول مقدمہ بھی اوپر سے آنے والی اجازت سے ہی درج کیا گیا ہے۔ تاہم یہ اجازت کہاں سے آئی۔ یہ ظاہر کرنے سے گریز کیا گیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ اور پنجاب و لاہور پولیس کے سربراہوں کی تعیناتی کے بعد لاہور میں اب تک درج ہونے والا یہ انتہائی اہم نوعیت کا مقدمہ ہے۔ اس مقدمے کے مدعی محمد بلال کی طرف سے پولیس کو فراہم کیے جانے والے ٹیلی فون نمبر پر کئی ایک بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔