امت رپورٹ :
پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں انتخابات کے التوا سے متعلق اتحادی حکومت مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کو بھی اس کا ادراک ہو چکا ہے۔ لہذا انہوں نے تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں میں اب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹس گردش کر رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے نئی مردم شماری کے نتائج آنے اور پھر حلقہ بندیاں مکمل ہونے تک دونوں صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات نہ کرانے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن دونوں صوبوں میں انتخابات کرانے کی تاریخ دے بھی دیتا ہے تو وفاقی حکومت اس معاملے کو عدالت لے جانے کا پلان رکھتی ہے۔ عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات کرانے کے نتیجے میں آئینی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ کیونکہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرا دیے جائیں تو پھر قومی اسمبلی اور دیگر دو صوبائی اسمبلیوں (سندھ اور بلوچستان) میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانا ہوں گے کہ اس وقت تک نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہو چکا ہوگا۔ پھر یہ کہ خود پی ٹی آئی کی حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل میں انتخابات نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ذرائع کے بقول نئی مردم شماری کا عمل شروع کرنے میں ایک ماہ کی تاخیر کا نوٹیفکیشن بھی اسی حکومتی منصوبے کی کڑی ہے۔ واضح رہے کہ پہلے نئی مردم شماری کا عمل یکم فروری سے شروع ہو کر چار مارچ تک مکمل کیا جانا تھا اور اس کے بعد حلقہ بندیاں ہونی تھیں۔ لیکن اب اسلام آباد سے جاری اعلامیہ کے مطابق مردم شماری کا عمل یکم فروری کے بجائے یکم مارچ سے شروع ہوگا اور یکم اپریل تک جاری رہے گا۔ اس کے بعد حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ یوں معاملہ مئی تک جا سکتا ہے۔ جبکہ تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اگر نوے روز میں کرائے جاتے ہیں تو یہ مدت پندرہ سے بیس اپریل بنتی ہے۔ اس صورت میں نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات ممکن نہیں۔
پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخابات کو نوے روز سے آگے بڑھانے کے لئے جہاں نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کو جواز بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ وہیں مالیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کا آپشن بھی زیر غور ہے۔ تاکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مزید ایک برس تک آگے بڑھائے جا سکیں۔ اگرچہ وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ تاہم پی ڈی ایم کے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ایشو پر غور مسلسل جاری ہے اور یہ معاملہ اتحادی پارٹیوں کے اجلاسوں میں بھی زیر بحث آ چکا ہے۔
ان ذرائع کے بقول اسمبلیوں کی مدت ایک برس بڑھانے کے لئے مالیاتی ایمرجنسی کا آپشن استعمال کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ جس کی آئین بھی اجازت دیتا ہے۔ جے یو آئی کے ایک رہنما کے مطابق وفاقی حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یوں عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام بحال ہونے جا رہا ہے۔ اس کے باوجود معیشت کو سہارا دینے کے لئے مالیاتی ایمرجنسی کا نفاذ ضروری دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورت میں اسمبلیوں کی مدت میں اضافہ کیا جاسکے گا۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی جس طرح قبل از وقت الیکشن کرانے کی مخالف ہے۔ اسی طرح اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کی بھی مخالفت کرے گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کے معاملے پر اتحادی پارٹیوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو مقررہ وقت پر عام انتخابات نون لیگ اور جے یو آئی کے حق میں نہیں جاتے۔
ان دونوں پارٹیوں کے اندرونی ذرائع کا خود یہ کہنا ہے کہ اگر موجودہ اسمبلیوں کو مزید ایک برس کا وقت ملتا ہے تو وفاقی حکومت کو معیشت بہتر بنانے کے ساتھ عوام کو ریلیف دینے کا موقع مل جائے گا۔ یوں سخت فیصلوں کے نتیجے میں ووٹ بینک کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ بحال ہو سکتا ہے۔ اس کے بر عکس پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ متاثر نہیں ہوا ہے کہ موجودہ حالات اور مہنگائی کا سارا ملبہ نون لیگ پر گر رہا ہے۔ لہذا مقررہ وقت پر عام انتخابات پیپلز پارٹی کو سوٹ کرتے ہیں۔ اسے اپنے سندھ کا قلعہ چھن جانے کا ویسے بھی کوئی خوف نہیں۔ جبکہ پنجاب میں حامی نگراں وزیر اعلیٰ آجانے سے سب سے بڑے صوبے میں ماضی کی بہ نسبت اس کی کامیابی کے زیادہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
اس سارے معاملے پر سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ جس طرح دونوں صوبوں کے گورنرز اب تک اسمبلی شیڈول نہیں دے رہے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے یہی لگ رہا ہے کہ اندرون خانہ کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے میں جب قومی اسمبلی سے اپوزیشن کا صفایا ہو چکا اور دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو چکیں تو یہ ریاست کے مفاد میں ہوگا کہ قومی اسمبلی اور دیگر دو اسمبلیاں بھی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرا دیے جائیں۔
یہ الگ بات ہے کہ آئین مالیاتی ایمرجنسی لگا کر الیکشن آگے بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل دو سو بتیس کی شق چھ اور سات میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو حکومت اسمبلی کی مدت ایک برس تک بڑھا سکتی ہے۔ اسی طرح دونوں صوبوں کی نگراں حکومتیں بھی وفاقی حکومت کو یہ سفارشات بھجوا سکتی ہیں کہ حالات بہتر نہیں۔ لہذا الیکشن ملتوی کر دئیے جائیں۔
ایک سوال پر کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ملک کی پچھتر سالہ تاریخ میں کبھی مالیاتی ایمرجنسی نہیں لگی۔ اگر ایسا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو ریاست کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا۔ کنور دلشاد کے بقول پہلے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینا اور پھر دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا عمران خان کے انتہائی غلط فیصلے تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ اقدامات کرکے نہ صرف پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ بلکہ اپنے ووٹروں کے جذبات کی بھی قدر نہیں کی۔ ان کے ووٹرز میں مایوسی پھیلی ہے۔ جبکہ تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو دوبارہ جو مقبولیت ملی تھی، اس میں کمی آگئی ہے۔ اس فرسٹریشن میں ہی انہوں نے اداروں پر حملے کیے۔ جس سے ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی غیر موجودگی کے سبب حکومت نے اپنی پسند کی قانونی سازی کرلی۔ سارے مقدمات ختم کرا لیے۔