احمد خلیل جازم :
سویڈین کے بعد ہالینڈ میں شان قرآن میں بے حرمتی کا المناک واقعہ پیش آنے پر عالم اسلام میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے اور تمام مسلم ممالک نے اس کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے تاہم اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے لے کر یو این او تک ایسی کوئی آواز نہیں۔ جوعالم اسلام کے خلاف اس طرح کے فتنوں کا قلع قمع کر سکے۔ اس صورتحال میں عالم اسلام کیا لائحہ عمل طے کرے۔ کون سے اقدام کیے جائیں۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے علمائے کرام سے گفتگو کی۔ جو نذر قارئین ہے۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی کے سینیٹ میں رکن سینیٹر مولانا مشتاق احمد خان نے ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یورپی ممالک میں قرآن پاک کی جو بے حرمتی ہو رہی ہے۔ خواہ وہ سویڈن میں ہوئی یا ہالینڈ میں۔ سویڈن میں تو یہ کام حکومت کی اجازت سے ہوا۔ یہ انتہائی غیر اخلاقی، اشتعال انگیز حرکت ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو یہ دہشت گردی ہے اور دنیا کو تیسری جنگ عظیم کی جانب لے جانے کی سازش ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ عمل عالم اسلام کے خلاف ایکٹ آف وار ہے۔ یہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات اور احساسات پر حملہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر مسلمان حکمرانوں کا ریسپانس انتہائی کمزور اور ناقابل قبول ہے۔ ہمارے پاس او آئی سی موجود ہے۔ اس کے رکن مسلم ممالک کی بڑی تعداد ہے۔ اس میں کئی مسلمان ممالک معاشی طاقتیں ہیں۔ اس کے باوجود جو ریسپانس ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس معاملے میں عالم اسلام کو اجتماعی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈپلومیٹک، سیاسی اور اکنامک چینل کو موثر طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں حرمت قرآن اور ناموس رسالت ﷺ کا عالمی سطح پر کوئی مدعی ہی نہیں ہے۔ عالمی سطح پر ایسے واقعات جیسے قرآن پاک کو جلانا پھاڑنا یا ناموس رسالت پر توہین آمیز مواد شائع کرنا، یہ واقعات اسی وجہ سے تسلسل سے ہوتے ہیں، کہ ان کو پتہ ہے کہ اسٹیٹ لیول پر کوئی جواب دینے والا نہیں ہے۔ ہمارے پاکستان کے حکمرانوں کا ریسپانس بہت کمزور ہے۔ انہیں سویڈن کے سفیر کو طلب کرنا چاہیے تھا۔ اسے ملک بدر کرنا چاہیے تھا۔ لیکن وزیر اعظم اور دفتر خارجہ نے ایک مذمتی اخباری بیان جاری کرکے اسی پر بات ختم کردی ہے‘‘۔
اس سوال پر کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جب ناموس صحابہؓ پر بل پیش ہوکر منظور ہو سکتا ہے تو توہین قرآن کے حوالے سے ایسا کوئی بل کیوں پیش نہیں ہوتا کہ جو ملک ایسی حرکت کرے، اس کے سفیر کو ملک بدر کرکے اس سے معاشی معاملات ختم کردئیے جائیں۔ اس پر سینٹر مشتاق کا کہنا تھا ’’میں نے ریزولوشن جمع کرلی ہے اور انشاء اللہ کل موقع ملا، تو میں اس پر بات کروں گا۔ اور یہی تجویز حکومت کے سامنے رکھوںگا، کہ بالکل ایسے ہی اقدامات کرے۔ جو آپشن ہوں گے اسے کام میں ضرور لائیں گے۔
رہی بات احتجاج کی تو عوام کو اپنے حکمرانوں پر دبائو بڑھانے کے لیے احتجاج کرنا چاہیے۔ پرامن اور قانون کے دائرے میں رہ کر بھرپور احتجاج ہونا چاہیے۔ تاکہ ہمارے حکمران عوام کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کریں، اور حرمت قرآن کے مدعی بن جائیں۔ اپنے ملک میں توڑ پھوڑکر نے کے بجائے اس کے مدعی بن کر قرآن کے پیغام کو پھیلائیں۔ قرآن کے ترجمے، تلاوت کو نئی نسل تک پہنچانا ہی اس کا طاقتور جواب ہے۔ بجائے، اپنے عوام، اپنے ملک کا نقصان کریں۔ چپ نہیں رہنا چاہیے۔ بھرپور انداز میں بولیں۔ تاکہ حکمرانوں پر دبائو بڑھے۔ اس وقت او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ ان لوگوں کے خلاف یورپین کورٹ آف جسٹس، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سمیت یو این او میں جائیں۔ یورپی یونین کو بتانا بہت ضروری ہے اور یہ کام پہلے سے موجود مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی کرسکتی ہے۔ انفرادی طور پر بھی تمام مضبوط معاشی ممالک کو آگے آکر لیڈ کرنا چاہیے‘‘۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کے حوالے سے مجلس احرار الاسلام کے امیر مولانا سید محمد کفیل بخاری نے’’امت ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری دانست میں تو بڑے مسلم ممالک، او آئی سی وغیرہ کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیشنل فورم پر اس مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارا حق ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی جارہی ہے۔ تو اس کا اظہار انٹرنیشنل فورمز پر بہت ضروری ہے۔ یو این او کے چارٹر کے مطابق بات کی جائے کہ دنیا کے تمام مذاہب، ان کی مقدس کتابیں، مقدس ہستیوں سمیت دیگر مقدس مقامات کا احترام کرانے پر زور دیا جائے۔ وہاں بات ہو۔
اگر پھر مسلم امہ کی بات نہیں مانی جاتی تو ایسے ممالک پر دبائو بڑھایا جائے۔ ان کی پراڈکٹس کا بائیکاٹ حکومتی سطح پر کیا جانا چاہیے۔ انہیں باور کرایا جائے کہ جب تک وہ ہمارے مذہبی اور انسانی حق کا تحفظ نہیں کریں گے، ہم آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر ریاستی سطح پر یہ بائیکاٹ ہوگا تو ان پر پریشر بڑھے گا اور وہاں کی حکومتیں اس قسم کی حرکات کا نوٹس لیں گی۔ وہ کوئی قانون بنا کر انہیں روک سکتی ہیں۔ ہم مسلمان تو ظاہر ہے تکلیف میں ہیں اور اس تکلیف کے ازالے کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔ ہم بے اختیار لوگ ہیں۔ یہ بااختیار لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ جو حکومتوں میں بیٹھے ہیں۔ جن کے روابط ہیں وہ مسلمانوں کی نمائندگی کریں۔ انہیں مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔
او آئی سی وغیرہ تو اس وقت مردہ بنے ہوئے ہیں۔ اتنے اسلامی ممالک کے صاحبان اقتدار کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ ترکی کے طیب اردگان کی انفرادی کوشش ہے جو قابل قدر ہے کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں آرہی لیکن وہ آواز بلند کرکے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اسی طرح تمام ممالک کے ذمہ داران کو ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان کی عزت اور احترام مسلمان ہونے کی صورت میں ہے۔ انہیں مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ عوام تو بے چارے شور مچا سکتے ہیں۔ احتجاج کرسکتے ہیں۔ اقدامات ہمیشہ حکومتیں کرتی ہیں‘‘۔