اقبال اعوان :
ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی میں دفاتر کے حصول کے لیے سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا۔ نئے بلدیاتی نظام کے بعد متحدہ بے گھر ہوجائے گی۔ اس کے یوسی، ٹائون اور ضلع کے دفاتر میں قائم سیکٹر اور یونٹ ختم کرا دیئے جائیں گے۔ موجودہ حالات میں راتوں کو اسکولوں، کالجوں اور بلدیاتی دفاتر میں میٹنگز منعقد کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب ایم کیو ایم، دھڑے بندی کے بعد اپنے کھونے والے وجود کو حاصل کرنے کے لیے نئے تنظیمی سیٹ اپ کو بھی تیار کر رہی ہے تاکہ کراچی کے دوبارہ 26 سیکٹر، دو سو سے زائد یونٹوں، رابطہ دفاتر اور تنظیمی سیٹ اپ کو بحال کیا جائے اور سندھ کے 19 شہروں میں سرگرمیاں شروع کی جا سکیں۔ تاہم ایک جانب وفاقی اور سندھ حکومتیں دبائو میں نہیں آرہی ہیں تو دوسری طرف متحدہ لندن گروپ رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے نئے تنظیمی سیٹ اپ لانے اور حلقہ بندیوں کی درستگی سمیت دیگر مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا ہے۔ تاکہ فروری کے پہلے ہفتے کے بعد سے رابطہ مہم، احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ سندھ کے سابقہ زیر اثر شہروں میں احتجاجی جلسے کیے جائیں اور کراچی میں باغ جناح کے اندر فروری کے آخر میں جلسہ کیا جائے۔تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پرانے مطالبات تو محض بہانہ ہیں۔ سڑکوں پر آنے کا مقصد دفاتر کا حصول ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے بیشتر دفاتر بلدیاتی آفسز میں قائم ہیں۔ جو نئے بلدیاتی سیٹ اپ کے بعد ختم کرا دیے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ پاکستان کو تمام دھڑوں کو یکجا کرانے کے باوجود فائدہ نظر نہیں آرہا کہ بلدیاتی نظام کا نیا سیٹ اپ جلد آجائے گا۔ جس کے بعد جماعت اسلامی یا پیپلز پارٹی اپنے بلدیاتی دفاتر میں متحدہ کی سیاسی سرگرمیاں برداشت نہیں کرے گی۔ متحدہ کے تمام سیکٹر ٹائون آفس، ضلع انتظامیہ کے دفاتر اور یونٹ یوسیز کے دفاتر میں قائم ہیں۔ ایک جانب عارضی دفاتر سے کام چلایا جارہا ہے تو دوسری طرف بہادر آباد کا مرکز بھی رفاہی پلاٹ پر خدمت خلق فائونڈیشن (KKF) کے سرد خانے پر قائم ہے۔
سندھ حکومت کے ادارے اس حوالے سے رپورٹ ارسال کر چکے ہیں۔ جبکہ سابقہ نائن زیرو سمیت دیگر دفاتر سرکاری تحویل میں ہیں۔ متحدہ کو پریشانی لاحق ہے کہ بلدیاتی نطام کا سیٹ اپ بنتے ہی ان کو ’’بے گھر‘‘ کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد تجاوزات ہٹانے کے لیے آپریشن کے دوران متحدہ کے سیکٹرز، یونٹ اور رابطہ دفاتر گرادیے گئے تھے۔
بعد ازاں ایم کیو ایم پاکستان نے حکومتی تعاون سے ضلع، ٹائون اور یو سیز کے دفاتر میں جگہیں حاصل کر لی تھیں۔ جبکہ بعض مسمار دفاتر کو دوبارہ بنا کر سیاسی سرگرمیاں شروع کی گئیں۔ ان میں ایم این اے اور ایم پیز کے دفاتر بھی بنائے گئے تھے۔ جبکہ خدمت خلق فائونڈیشن کے نام پر حاصل رفاہی پلاٹوں پر بھی دفاتر بنا لیے گئے تھے۔ تاہم اب نیا بلدیاتی سیٹ اپ آنے کے بعد یوسیز، ٹائون اور ضلع کے دفاتر خالی کرانے ہوں گے۔ جس کے بعد متحدہ کو بلدیاتی دفاتر سے بوریا بستر لپیٹنا پڑے گا۔
دوسری جانب ذرائع کے بقول کراچی کے اندر متحدہ کے 26 سیکٹرز میں بعض کے اندر ایم کیو ایم لندن کے لوگ فعال ہیں۔ اس صورتحال میں متحدہ پاکستان تنظیمی سیٹ اپ دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے تاکہ کراچی سمیت سندھ کے 19 شہروں میں دوبارہ اپنا وجود تسلیم کرا سکے۔
کراچی کے 26 سیکٹروں لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل، گلستان جوہر، اسکیم 33، گلشن اقبال، پی آئی بی، لائنز ایریا، سوسائٹی، محمود آباد، ڈیفنس، کلفٹن، برنس روڈ، رنچھوڑ لائن، لیاری، پاک کالونی، بلدیہ، قصبہ علی گڑھ، اورنگی، سرجانی، نیوکراچی، نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، ناظم آباد گلبہار، لیاقت آباد اور فیڈرل بی ایریا میں دوبارہ تنظیم سازی کی جارہی ہے۔ جبکہ سندھ کے 19 شہروں، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، میرپورخاص، سانگھڑ، نواب شاہ، نوشہرو فیروز، دادو، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، خیرپور، سکھر، شکارپور، جیکب آباد، کشمور، گھوٹکی، ٹنڈو الہ یار، جامشورو، عمرکوٹ میں بھی سیٹ اپ دوبارہ فعال کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان میں سے حیدرآباد، میرپورخاص، ٹنڈو الہ یار میں متحدہ لندن زیادہ سرگرم ہے۔
ذرائع کے مطابق متحدہ پاکستان کے رہنما وزیر اعظم سے ملاقات کر کے دفاتر کھلوانے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ سابقہ زیر اثر علاقوں میں بزرگوں، خواتین کے نیٹ ورک کے ذریعے منت سماجت کر کے دوبارہ اپنا وجود منوانے کی کوشش کر رہی ہے کہ استعفیٰ دے کر حکومت گرانے کی اس کی بلیک میلنگ کی پوزیشن ختم ہو چکی۔