سجاد عباسی
ماسکو میں میڈیا ہائوسز کے دوروں کا آخری’’ اسٹاپ‘‘ رشیا ٹوڈے ہی تھا، جہاں سے فراغت پانے کے بعد ہمیں بھوک نے بے حال کررکھاتھا کیونکہ دوپہر کے کوئی تین بج چکے تھے ۔ میڈیا اداروں کے اعلیٰ حکام نے بریفنگ اور تبادلہ خیال کے بعد خواتین گائیڈ ہمارے ساتھ کردی تھیں جنہوں نے پوری ایمانداری سے ہمیں مختلف فلورز پر موجود دفاتر اور اسٹوڈیوز دکھائے اور اس بات کا خیال رکھا کہ واش رومز کے سوا کوئی ایسا مقام دیکھنے سے رہ نہ جائے کہ ہم بعد میں گلہ کریں۔ ظاہر ہے مہمان نوازی کا تقاضا بھی یہی تھا۔ مگر اس "پرپیچ” سفرکےدوران آنتوں سے قل ہو اللہ کا ورد جاری ہو چکا تھا۔
ہم نے سفارت خانے کے افسر اسرار محمود سے جو تین دن سے استقامت کے ساتھ وفد کے شانہ بشانہ چل رہے تھے حالِ دل بلکہ حال معدہ بیان کر دیا۔ معلوم ہوا کہ دیگر احباب کے پیٹ میں بھی آہ و فغاں جاری ہے۔ ہماری خواہش یہ تھی کہ بھوک کی شدت کے پیش نظر کوئی ایسا مسلمان ریسٹورنٹ مل جائے جہاں کھانے کے ساتھ بھر پور انصاف کیا جا سکے۔ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ تو آس پاس بھی موجود تھے مگر اسرار صاحب کا کہنا تھا کہ پیٹ بھر کے کھانا ہے تو ترک ریستوران چلنا ہوگا۔ جو یہاں سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ماسکوزو کے قریب واقع ہے یعنی’’ اک اور واک کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔۔’’ مگر صاحب! کیا کیا جائے پیٹ کی خاطر قربانی تو دینا ہی پڑتی ہے۔ ترکش ریسٹورنٹ کے عملے نے بھوک سے نڈھال اور واک سے بے حال پاکستانی مہمانوں کا بھر پور خیر مقدم کیا ۔ مینو بک سب کے ہاتھ میں تھمانے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ویسے تو آپ سب اپنا اپنا آرڈر کرنے میں آزاد ہیں تا ہم یہاں کی خصوصی سوغات شیف برگر ہے جسے ماسکو آنے والے مہمان عرصے تک یاد رکھتے ہیں۔ سو مینو بک پر رینگتی شہادت کی انگلیاں تھم گئیں اور ’’ہمہ یا ران دوزخ ‘‘کے فارمولے کے تحت سب نے مذکورہ برگر پر ہی صاد کیا۔ جس کے وصال کیلئے ہمیں کوئی نصف گھنٹے کا مزید انتظار کرنا پڑا جبکہ ہر سکینڈ پیٹ پر بھاری گزر رہا تھا۔
وقت گزاری کیلئے ہم نے پہلے تو واش روم جا کر منہ ہاتھ دھوئے پھر واپس آ کر آس پاس کے مناظر کیمرہ میں محفوظ کئے۔ ہم یہ بتانا بھول گئے کہ ڈائننگ ہال اوپن اور چھت پر تھا جہاں سے شہرکے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوا جاسکتا تھا ،اوپر سے موسم بھی بڑا شاندار تھا۔ سورج بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا اور بارش کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا تھا مگر ایک بار پھر بات امکان سے آگے نہ بڑھ سکی۔ جب ہم روس کیلئے روانہ ہوئے تو موسم کے حال کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک عدد چھتری ضرور ساتھ رکھیں کہ باران رحمت کسی بھی وقت نازل ہو سکتی ہے۔ وفد کے بیشتر ارکان نے ہدایت پر عمل کیا جو ایک دوحضرات عجلت میں چھتری لینا بھول گئے وہ جاتے ہوئے پچھتاتے اور واپسی پر مسکراتے رہے کیونکہ آٹھ روز ہ قیام کے دوران صرف سینٹ پیٹرز برگ میں ایک بار دس سے پندرہ منٹ کی بارش ہوئی مگر وہ بھی اس وقت جب ہم سب کو سٹر میں سوار تھے لہٰذا چھتری کے درشن کی نوبت ہی نہیں آئی البتہ موسم تمام وقت ہلکا سرد اور خوشگوار رہا۔
خدا خدا کر کے برگرکا آرڈرسرو کردیا گیا مگر اس قدر تندرست و توانا برگر کو دیکھ کر ہم سب بمشکل ہی ہنسی ضبط کر پائے بلکہ ایک دولوگوں نے تو ہنسی روکنے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی۔ عام طو رپر برگر والی پلیٹ میں ہی ایک طرف سلادرکھا جاتا ہے مگر یہاں بڑے سائز کی بے کنارہ لکڑی کی پلیٹ میں برگر صاحب بمشکل تمام براجمان بلکہ دراز تھے۔ ذائقہ تو بہت اچھا تھا مگر تمام تر کوشش اور شدید بھوک کے باوجود ہم میں سے کوئی بھی اس پہاڑ کو 70 فیصد سے زیادہ سرکرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اپنے میزبان کی بات یاد آرہی ہے کہ کھانے والا اس برگر کو عرصے تک یاد رکھتا ہے۔ مگر ہمارا مسئلہ ذرا مختلف تھا ہم ٹھہرے دیہی پس منظر رکھنے والے شہری جو بحالت مجبوری تو فاسٹ فوڈ پر گزارا کر سکتا ہے مگر برگر یا پیزا کو لنچ یا ڈنر کا متبادل تسلیم کرنے کو دل نہیں مانتا ،چاہے وہ کتنا ہی ’’ دیوہیکل‘‘ کیوں نہ ہو چنانچہ ہمار ا خاموش شکوہ یہ تھا کہ ڈیڑھ کلومیٹر پیدل چل کرہم اسلامی ملک کے ریستوران میں گئے اور کھایا صرف برگر۔۔۔ بات کچھ بنی نہیں۔
چنانچہ رات 11بجے کے قریب میں اور برادرم حافظ طارق محمود ڈنر کیلئے ارباط اسٹریٹ نکل پڑے جہاں ایک روزقبل ہم نے ترک اور آذربائیجانی ریسٹورنٹ دیکھے تھے۔ بزرگ ترک ویٹر تو جیسے ہمارا ہی منتظر تھا کیونکہ وقت کافی ہو چکا تھا اور ہمارے علاوہ صرف ایک ’’جوڑا ‘‘ڈنر سے فراغت پا کر اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ راستہ سجھائی دینے میں آسانی ہو اوروہ’’ اپنے ہی‘‘ گھر جائیں کیونکہ وافر مقدار میں انگور کا پانی نوش جاں کرنے کے بعد یہ مرحلہ مشکل تھا۔ رات گیارہ بجے سڑکیں سنسان کیوں ہو جاتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں بتایا گیا کہ روسی وقت کے بڑے پابند ہیں۔ ورکنگ ڈیز پر رات کو جلد سونا اور صبح جلد اٹھناان کا معمول ہے جس پر پابندی سے عمل کرتے ہیں البتہ ویک اینڈ پر رات گئے تک جاگتےہیں ۔ ریستورانوں کو دیر تک آباد رکھتے اور خوب ہلا ّ گلاّ کرتے ہیں۔ ارباط اسٹریٹ پر بھی ہفتے کو رات گئے تک رونق لگی رہتی ہے۔
مگر عام دنوں میں روسی صبح سویرے اٹھتے اور وقت پر دفتر یا کاروبار پر پہنچتے ہیں۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ماسکو کے بازار بھی صبح سات سے آٹھ بجے کے درمیان کھل جاتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ وقت پر سونا۔ صبح سویرے اٹھنا اور صاف ستھرے ماحول میں طویل واک ہی دراصل روسیوں کو صحت مند اور چاک وچوبند رکھتی ہے۔آپ کو شاذو نادر ہی کوئی روسی باشندہ موٹا یا فربہی مائل دکھائی دیتا ہے۔ ترک ریستوران پر ہمیں کھانے کو جوڈشیں ملیں وہ قریب قریب پاکستانی ہی تھیں جس میں ملائی بوٹی ۔ قیمہ اور چاول شامل تھے البتہ ملائی بوٹی کا ترک نام کچھ اور تھا مگر یہ ضرور ہوا کہ اس کھانے نے ہمیں برنس روڈ کراچی کی یاد دلا دی۔
روس میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کیلئے حلال اور پسند کا کھانا حاصل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں مگر ہم لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ ہماری زیادہ تر دعوتیں پاکستانی بھائیوں کی طرف سے تھیں۔ ماسکو میں تین روزہ قیام کے دوران پہلے دن ہم نے اپنی کمیونٹی کے ساتھ تاج محل نامی پاکستانی ریسٹورنٹ میں ڈنر کیا دوسرے دن ماسکو میں پاکستانی سفیر قاضی محمد خلیل ہمارے میزبان تھے جو دفتر خارجہ کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اہلیہ کی بیماری کے باوجود نہ صرف ہمیں پورا وقت دیا بلکہ پاک روس دفاعی اور اقتصادی تعلقات میں ہونے والی پیش رفت پر سیر حاصل بریفنگ بھی دی۔ ایک دوپہر کو گندھارا ریسٹورنٹ پر لنچ کیا۔ دووقت ترک ریستوران کا ذائقہ چکھا۔ اسی طرح سینٹ پیٹرز برگ میں پاکستان کے اعزاز ی قونصل جنرل عبدالرئوف رند اور پاکستانی کمیونٹی کے دیگر لوگوں نے ہمیں اپنی بھر پور محبت اور میزبانی کے ذریعے دیار غیر میں موجودگی کا احساس ہی نہیں ہونے دیا ۔
درمیان میں عموماً دوچار بار دوپہر کا وقت بچتا تھا جب ہم کسی نہ کسی فاسٹ فوڈ چین پر چلے جاتے تا ہم یہاں بھی مچھلی کے سوا کسی زی روح جانور یا پرندے پر بھروسہ کرنا ہم نے مناسب خیال نہ کیا۔ ہم یہ بتانا بھول گئے کہ وہاں قیام کے دوران ہمارا ناشتہ بھر پور اور صحت مند رہا۔ خوش مزاج اور دراز قد روسی شیف انڈا آملیٹ بنا کر دیتا جس میں پنیر ۔ ہری پیاز۔ زیتون ۔ ہری مرچ سمیت اپنی پسند کی ہر چیز حسب منشا شامل کرائی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ تازہ دودھ اور جوس ، قاشوں میں کٹے ہوئے سنگترے اور دیگر تازہ پھل بھی بوفے کا حصہ تھے جبکہ انجیر۔ اخروٹ۔ بادام سمیت دیگر ڈرائی فروٹ اس کے علاوہ تھے۔ ہمارے لئے’’ حاصل غزل‘‘ انڈا آملیٹ اور تاز ہ پھل تھے۔ ویسے روس میں پھل اور سبزیاں زیادہ تر نامیاتی(Organic) دستیاب ہیں اور اس قدر تازہ اور دلکش کہ کچی کھانے کو دل چاہتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ روس میں جو چند چیزیں ہمارے دل کو زیادہ بھائیں ان میں ایک ناشتہ بھی شامل ہے۔ بعض چیزوں کا نام تو خوف فساد خلق کے پیش نظر نہیں لیا جا سکتا لہٰذا ان کے نمبر بھی ہم ناشتے کو دے دیتے ہیں اگر ہمیں کوئی آپشن دیتا تو ہم اس دیہاتی کی طرح دوپہر اور رات کو بھی ناشتہ ہی کرتے جو پہلی بار اپنے دوست سے ملنے شہر آیا تھا۔۔ دیہاتی کا قصہ پھر سہی