امت رپورٹ :
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی غلط معاشی پالیسی نے خود اپنی پارٹی نون لیگ اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے خواب بکھیر دیئے ہیں۔ کم و بیش تمام ماہرین معیشت کا اس پر اتفاق ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں ڈھائی ماہ کی تاخیر نے پہلے سے ڈوبتی معیشت حد درجہ نقصان پہنچایا ہے۔
لندن میں اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران اور پھر پاکستان آنے کے بعد بھی اسحاق ڈار مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لے کر آئیں گے۔ ملک بھر کے معیشت داں حیران تھے کہ ڈار کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے؟ عام طور پر سیاست دان مخالفین پر رعب ڈالنے کے لیے میڈیا میں اس نوعیت کی بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ بیشتر نے وزیر خزانہ کی ان بڑھکوں کو اسی سیاسی بیان بازی تعبیر کیا۔ لیکن یہ صرف سیاسی بیان بازی نہیں تھی۔ بلکہ اسحاق ڈار نے اپنے پارٹی قائد نواز شریف کے سامنے پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیوں کی قیادت کو باقاعدہ ’’وچن‘‘ دیا تھا کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لا کر دکھائیں گے۔ اور یہ کہ آئی ایم ایف کو اپنے تجربے کی سحرکاری میں ایسا جکڑ یں گے کہ وہ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھانے سے متعلق سخت شرائط واپس لے کر اپنا معطل شدہ پروگرام بحال کردے گا۔
اتحادیوں نے وزیر خزانہ کے اس وچن یا وعدے پر اس قدر یقین کر لیا کہ آئندہ کے جنرل الیکشن میں اترنے کا لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جانے لگا۔ عام انتخابات مقررہ وقت پر کرانے کی سوچ تو پہلے ہی اتحادیوں میں پائی جاتی ہے۔ اسحاق ڈار کی اس یقین دہانی پر مصمم ارادہ کر لیا گیا کہ قبل از وقت الیکشن سے متعلق عمران خان کا مطالبہ کسی صورت تسلیم نہیں کرنا۔
اتحادیوں کا خیال تھا کہ جب اسحاق ڈار، ڈالر دو سو روپے سے نیچے لے آئیں گے۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائے بغیر آئی ایم ایف اپنا پروگرام بحال کرکے قسط جاری کردے گا، جس کے بعد دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک بھی اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے تو تب ہی وہ وقت ہوگا، جب اتحادی حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے چھٹکارا ملے گا تو اس کے نتیجے میں اتحادی پارٹیوں کا بری طرح متاثر ہونے والا بینک ووٹ بھی بحال ہو جائے گا اور وہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو اڑا کر رکھ دیں گی۔ تاہم الیکشن میں دھڑلے سے جانے کے اس پلان کے لیے وقت درکار تھا، سو الیکشن مقررہ وقت سے بھی ایک برس آگے بڑھانے کی سوچ پختہ ہوگئی۔
بیان کردہ یہ ساری کہانی، محض کوئی تجزیہ یا تبصرہ نہیں۔ بلکہ خالصتاً معلومات پر مبنی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ ساری یقین دہانیاں گذشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں کرائی تھیں۔ دراصل جمعیت علمائے اسلام سمیت پی ڈی ایم کی دیگر پارٹیوں میں یہ تشویش بڑھتی جارہی تھی کہ اتحادی حکومت کے سخت فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والی مزید مہنگائی نے جس طرح عوام کی کمر توڑی ہے، ایسے میں وہ پی ٹی آئی کے کٹھن دور کو بھول کر موجودہ اتحادی حکومت کو ذمہ دار سمجھنے لگے ہیں۔ یوں اس عوامی غصے کا خمیازہ الیکشن میں نون لیگ کے ساتھ پی ڈی ایم کی دیگر پارٹیوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ پی ڈی ایم کا ہنگامی اجلاس بلا کر نون لیگ کی قیادت پر زور دیا جائے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے اپنا ٹھوس لائحہ عمل پیش کرے۔
اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا۔ جس میں جے یو آئی رہنماؤں کے ساتھ اختر مینگل اور آفتاب شیرپاؤ کے نمائندے سمیت دیگر پارٹیوں کے رہنما شریک ہوئے۔ نون لیگ کی طرف سے شاہد خاقان عباسی اور دوسرے رہنما موجود تھے۔ جبکہ لندن میں مقیم نواز شریف اور مریم نواز ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ ان دنوں اسحاق ڈار ورلڈ بینک سے مذاکرات کرنے امریکہ گئے ہوئے تھے۔ چونکہ اجلاس کا بنیادی ایجنڈا معیشت سے متعلق تھا، لہذا وزیر خزانہ کی موجودگی ضروری تھی۔ انہیں بھی امریکہ سے ویڈیو لنک پر لے لیا گیا۔
مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں نے جب اپنا مدعا نون لیگ کے قائد نواز شریف کے سامنے رکھا تو انہوں نے اسحاق ڈار کو جواب دینے کا کہا۔ اجلاس میں موجود ایک رہنما کے بقول اسحاق ڈار نے جو یقین دہانی کرائی وہ لفظ بہ لفظ یوں تھی ’’مجھے پانچ، چھ ماہ کا وقت دیا جائے۔ میں ڈالر کو اس قیمت پر لے آؤں گا جہاں نون لیگ نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں چھوڑا تھا۔‘‘
واضح رہے کہ نون لیگ نے اقتدار چھوڑا تو اگست دو ہزار اٹھارہ میں ڈالر کی قیمت122 روپے سے 124 روپے تھی۔ اجلاس میں شریک رہنما کے بقول اسحاق ڈار نے زور دے کر یہ بات کہی تھی کہ وہ ڈالر کو واپس اسی ریٹ پر لائیں گے جو نون لیگی حکومت چھوڑنے کے وقت پر تھا۔ اگرچہ اسحاق ڈار کا یہ دعوی حقیقت سے دور تھا، تاہم اتحادی پارٹیوں نے سوچاکہ اگر وزیر خزانہ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے بھی لے آتے ہیں تو بڑھتی مہنگائی کو بریک لگے گا اور عوام کسی حد تک سکھ کا سانس لیں گے۔ اسحاق ڈار کا ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں کو بھی کم کریں گے۔ یوں وزیر خزانہ کی اس خوش کن یقین دہانیوں کے ساتھ پی ڈی ایم اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
لیکن وقت گزرتا گیا ڈالر نیچے آیا نہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو اپنے ’’سحر‘‘ میں جکڑ سکے۔ ادھر اندرون خانہ پی ڈی ایم کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ ناکامی سے جھنجلائے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو تڑی لگائی کہ ’’ڈالر کو آزاد چھوڑنے کی ہدایت دینے والے وہ کون ہوتے ہیں۔ میں ان کی منت نہیں کروں گا۔‘‘ نتیجہ یہ نکلا کہ اسحاق ڈار ڈھائی ماہ کی بیکار مشق کے بعد ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ تمام شرائط تسلیم کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول کے معاہدے کا فیصلہ کیا جاچکا۔
آئی ایم ایف کا وفد بات چیت کے لیے 31جنوری کو پاکستان پہنچ رہا ہے۔ آزادی ملتے ہی ڈالر نے چھلانگیں لگانی شروع کردی ہیں۔ آئی ایم ایف سے حتمی معاہدہ ہوتے ہی بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ متوقع ہے۔ اتحادیوں کے علاوہ خود نون لیگ بھی حیران و پریشان ہے کہ ارسطو وزیر خزانہ نے یہ کیا کردیا۔ اب کیا منہ لے کر الیکشن میں عوام کا سامنا کریں گے؟۔