نواز طاہر :
ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں میں گذشتہ تین ماہ کے وقفے کے بعد اب پاکستان مسلم لیگ ن بھی انٹری ڈال دی ہے اور کسی تعطل کے بغیر پنجاب بھر میں جلسے جلوسوں کی ابتدا کردی ہے۔ تاہم باقاعدہ آغاز یکم فروری سے ہوگا، جس کی قیادت مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کریں گی۔ جبکہ اس کا اعلان بھی انہوں نے تین ماہ کے بعد وطن واپسی پر استقبالیہ کیمپ سے خطاب میں کردیا ہے۔ مبصرین کے مطابق سیاسی تحریک میں ن لیگ نے بڑی جاندار انداز سے خاموشی توڑ دی ہے اور اب سیاسی مقابلہ باقاعدہ شروع ہونے والا ہے جس میں عوامی مقبولیت حقیقی طور پر سامنے آئے گی اور عمران خان کو بھی بیٹھک سے نکل کر سڑکوں پر آنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ علاج کی غرض سے تین ماہ قبل مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی لندن روانگی کے بعد سے ان کی جماعت سیاسی سرگرمیاں صرف بند کمروں میں اجلاس اور میڈیا کے سامنے گفتگو تک محدود رہی تھی۔ اس سے اسے تنقیدکا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور مقامی قیادت یہ خلا پُر نہیں کررہی تھی۔ جس کے بعد مریم نواز کو چیف آرگنائزر کے نئے عہدے کے ساتھ ڈاکٹروں کی ہدایات کے برعکس وطن واپس آنے اور جماعت کی قیادت کرتے ہوئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس پر ہفتے کے روز عمل درآمد کرتے ہوئے وہ دبئی کے راستے لاہور پہنچیں تو علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر ہزاروں کارکنوں اور پارٹی رہنمائوں نے ان کا پُر جوش استقبال کیا۔
مسلم لیگ ن لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر کے زیرِ انتظام استقبالیہ کیمپ لگایا گیا تھا۔ یہ کیمپ علامہ اقبال انٹرینیشنل ایئر پورٹ کے بیرونی لان میں داخلی سائڈ روڈ پر لگایا گیا تھا، جہاں کارکن دوپہر ایک بجے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس کیمپ میں وفاقی وزیر جاوید لطیف کی زیر قیادت قافلہ شیخوپورہ اور وزیراعظم کے مشیر عطا ر تارڑ کا قافلہ گھکھڑ منڈی سے پہنچا تھا۔ جبکہ مقامی رہنمائوں کے الگ قافلے ان کے علاوہ تھے جن میں خواجہ سلمان رفیق کا قافلہ پہلے اور مسلم لیگ ن کے سابق صدر پرویز ملک کے صاحبزادے و اہلیہ رکن قومی اسمبلی شائستہ ملک کا دوسرے نمبر پر قراردیا جارہا ہے۔
استقبالیہ کیمپ کے باہر گاڑیوں میں کارکنوں کو بریانی اور پینے کیلئے پانی کے ساتھ ساتھ جوس اور چائے بھی فراہم کی گئی۔ استقبال کیلئے آنے والے کارکنوں میں تقسیم کیلئے دس ہزار پارٹی پرچم مختلف گاڑیوں میں لائے گئے تھے۔ لیکن بڑی تعداد میں کارکن پارٹی پرچم کے بغیر بھی موجود تھے۔ کارکنوں کو واک تھرو گیٹ سے سیکورٹی چیک کے بعد کیمپ میں داخلہ کیا گیا۔ تاہم مریم نواز نے خطاب سے پہلے کیمپ اور اسٹیج کے ٹرالر کے درمیان لگے بیریئر ہٹوا دیے تھے۔
کئی کارکنوں نے سیکورٹی چیک پوسٹ کی پکٹ پر بھی چڑھ کر استقبال کیا اور دور سے ہی گل پاشی کی۔ استقبالی کیمپ کے پیشِ نظر رِنگ روڈ اور ایئرپورٹ کے درمیانی لان میں سائڈ کا روڈ بند کرکے داخلی اور خارجی متبادل راستہ فراہم کیا گیا تھا اور ٹریفک کی روانی برقرارکھی گئی تھی۔ البتہ مریم نواز کی فلائٹ سے استقبالی کیمپ تک پہنچنے کے دوران کچھ دیر کیلئے ٹریفک کا رش بڑھ گیا تھا۔ لیکن سیکیورٹی اور پولیس اہلکاروں نے بارہ سے پندرہ منٹ کے اندر ٹریفک مکمل طور پر بحال کروادی۔
استقبالیہ کیمپ میں بڑے اسٹیج کے بجائے مختصر اسٹیج لگایا گیا تھا جس میں صرف مسلم لیگ ن لاہور کی قیادت موجود تھی۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس استقبالیے کیلئے پروگرام تین روز قبل تبدیل کیا گیا تھا، جس کے تحت مریم نواز یہاںسے خطاب کے بعد جاتی امرا روانہ ہوگئیں۔ تاہم بڑی تعداد میں گاڑیاں ان کی بلیک گاڑی کے پیچھے قافلے کی صورت میں روانہ ہوئیں، جبکہ باقی کارکن نعرے لگاتے اپنے مقامی رہنمائوں کے ساتھ واپس رخصت ہوگئے۔ اس سے پہلے جب ان کی فلائٹ مقررہ وقت سے چالیس منٹ کی تاخیر سے پہنچنے کا اعلان ہوا تو ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کارکنوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے اور مسلم لیگی قیادت کے حق میں نعرے لگواتے رہے۔ کیمپ کے لائوڈ اسپیکر سے کارکنوں کو سبزے اور پودے کا خاص خیال رکھنے کیلئے بھی اعلان کیے جاتے رہے۔
تین ماہ کے بعد وطن واپسی پر مریم نواز نے اعلان کیا کہ ڈاکٹروں نے ابھی انہیں زیادہ بولنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن وہ آرام سے گھر نہیں بیٹھیں گی اور ہر ضلع میں جلسے کریں گی، جس کا شیڈول تیار ہے اور یکم فروری سے وہ پنجاب بھر کے دورے پر نکلیں گی۔ کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن جب بھی ہوئے، ان میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت کرے گی اور ماضی کی طرح ملک کو مشکلات سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کے راستے پر لائے گی ۔
مسلم لیگ ن کی چیف ارگنائزر مریم نواز کی کی وطن واپسی اور تازہ دم سیاسی خطاب کے ساتھ ساتھ استقبالی جلسے کے حوالے سے لاہور میں مسلم لیگ ن کی اس سیاسی سرگرمی کو مسلم لیگ ن کے سیاسی تحرک کو سیاسی حلقوں میں اہم قراردیا جارہا ہے۔
تجزیہ کار شفقت اللہ ڈھلوں کا کہنا ہے کہ مریم نواز کے استقبال کیلئے یہ بات اہم نہیں کہ کارکنوں کی تعداد دس ہزار تھی یا اس سے زیادہ یا کم؟ اہم بات یہ ہے کہ اب صرف کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں، مقابلے میں سبھی سیاسی جماعتیں متحرک ہوںگی۔ جو لوگ یکطرفہ کہہ رہے تھے کہ فلاں پارٹی کا گراف بہت اوپر چلا گیا ہے اور فلاں فلاں پارٹی ختم ہوگئی، وہ اب مقابلہ دیکھیں گے اور کس جماعت کی کتنی عوامی مقبولیت ہے، وہ بھی سب کے سامنے آجائے گی۔ اب لوگوں کی نظریں زمان پارک سے ہٹ کر دوسری اطراف بھی اٹھیں گی اور جمہور کی آواز ابھرے گی۔