احمد خلیل جازم :
سویڈن اور ہالینڈ میں توہینِ قرآن پاک کے ارتکاب سے عالم اسلام میں شدید رنج اور غصہ پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے نامور علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایسے فتنوں کے لیے امت مسلمہ کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔
اسلام دشمنوں کے مقابلے کے لیے بھرپور تیاری کرنی ہوگی۔ اس ضمن میں لانگ ٹرم فارمولا اپنانے کی ضرورت ہے اور ان تمام ممالک سے ہر قسم کا کاروبار ترک دینا چاہیے، جہاں گستاخوں اور ملعونوں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ یہ صرف ایک مسلم ملک کی ذمہ داری نہیں، بلکہ تمام اسلامی ممالک مل کر ان ممالک سے لین دین ختم کردیں۔ وہاں سے اپنے سفیر واپس بلا لیں اور ان کے سفیروں کو ملک بدر کردیں۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور ایران ایسے ممالک ہیں جو اس وقت امت مسلمہ کو لیڈ کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، اس حوالے سے اس کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کو لیڈ کرئے اور اس معاملے پراپنا مذہبی اور قائدانہ کرادار ادا کرے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ’’یہ ذمہ داری تمام مسلم ممالک کی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ وقت ہے کہ اب امت کو متحد ہونا پڑے گا۔ لیکن فی الوقت تو امت مسلمہ کو خواب میں متحد کیا جاسکتا ہے، عالم بیداری میں ممکن نظر نہیں آتا۔ گستاخیوں اور توہین قرآن جیسے دل آزار واقعات کا سدباب طاقت سے ممکن ہے۔
مسلم ممالک کے پاس اقتصادی طاقت ہے، لیکن وہ اسے اسلام کے پلڑے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ جہاں تک ان مغربی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا تعلق ہے، تو سیدھی سی بات ہے جب آپ غلامی کے دور سے گزر رہے ہوں، تو کیسے ممکن ہے؟ آپ دیکھیں ہمارے اپنے ملک کی اقتصادیات وینٹی لیٹر پرہے۔ ہمارے حکمران اور عوام اپنے اخراجات تک کم کو تیار نہیں ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ان سے تجارت روکیں گے۔ انہوں نے آپ کو مجبور کررکھا ہے۔
رہی بات علمائے کرام کی تو ایک وقت تھا علما کی آواز میں تاثیر تھی۔ اب تو میڈیا اور سوشل میڈیا جب سے آیا ہے، ابلاغ اور کمیونی کیشن پر یورپی ممالک کا کنڑول ہوگیا ہے۔ علما کا وہ کنڑول رہا نہیں۔ اب علما بھی عیش پسند ہیں، اب صرف وہ مسجدیں کھلوانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنی ایمپائر بنارکھی ہیں۔ اب تو اللہ سے دعا کریں کہ وہ عالم غیب سے مدد فرمائیں۔‘‘
مفتی کفایت اللہ کا کہنا تھا کہ ’’اس کے دو حل ہیں۔ ایک مستقل اور ایک عارضی۔ مستقل حل تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھ کر یورپی ممالک کے برابر نہیں، بلکہ ان سے آگے ہونا چاہیے۔ تاریخ شاید ہے کہ جب ہم اس شعبے میں آگے تھے تو مسلمان سب پر غالب تھے۔ اب مسلمانوں میں وہ بات نہیں رہی۔ قرآن کریم بھی اسی بات کا حکم دیتا ہے کہ دشمن پر نظر رکھو وہ جس میدان میں آگے بڑھے آپ بھی بڑھو۔ نبی کریمﷺ کے زمانے میں بھی جو مسلمان تلوار بناتے تھے وہ اپ ڈیٹ ٹیکنالوجی ہوتی تھی۔
یہ تاثر غلط ہے کہ مذہب سائنس کے راستے میں آرہا ہے۔ مستقل حل تو یہی ہے کہ ہم معاشی طور پر بھی مضبوط ہوں اورٹیکنالوجی میں بھی آگے رہیں۔ اب رہی عارضی حل کی بات تو وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو بیدار ہونا ہوگا۔ لوگ تو بہت نکلیں لیکن اپنے ملک کے گملے، شیشے توڑیں تو یہ اپنے ملک کا نقصان ہے۔ حکمرانوں کو مجبور کیا جائے کہ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے عقائد اور جذبات کے ترجمان ہیں۔ اب پلیٹ فارم تو آپ کے پاس ہیں۔ رابطہ اسلامی ہے، او آئی سی وغیرہ ہے۔ یہ پلیٹ فارم موثر طور پر مقدمہ لڑ سکتے ہیں۔
مسلم ممالک عالمی لحاظ سے چاہے جس بلاک میں ہوں، امریکہ ہو یا روسی، یا چینی بلاک۔ یہ ان کی سیاسی مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایک ایسا بلاک بھی ہو جہاں مسلمان ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم مذہب کے مقابلے میں مل کر ایک ہی بلاک میںہیں۔ ایک ملک اس کی قیادت کرے۔ پاکستان، ایران، سعودی عرب یا ترکی یہ چار ملک ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پھر میں سمجھتا ہوں کہ مداوا ہوسکتاہے۔ لیکن ہم اشتعال میں آکر توڑ پھوڑ کریں، یہ عارضی ہے اور نہ ہی مستقل حل ہے۔
اب رہی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات تو یہ بہت ضروری ہے کہ آپ ایسے ممالک سے تجارت کرکے انہیں پیسے دے رہے ہیں، چیزین منگوا رہے اور وہ انہی پیسوں کو آپ کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ یہ کام کریں۔ آپ اپنی ناراضی کا اظہار کس طرح کر رہے ہیں۔ تو یہی طریقہ ہے کہ ہم آپ کی کوئی چیز نہیں خریدیں گے۔ جب ان کی امپورٹ نہیں ہوگی، تو انہیں اپنی غلطی کا احسا س ہوگا۔ یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے اسلامی ممالک کو کرنا چاہیے۔ بلکہ پورے اسلامی ممالک کے سفیروں کو ان ممالک سے بلوا لیا جائے اور ان کے سفیروں کو واپس بھیجا جائے۔ اگر واپس نہیں بلوا سکتے تو اپنے سفیروں کو کہیں کہ وہ ان ممالک کی حکومتوں پر زور دیں کہ آپ کے عوام ہمارے جذبات سے نہ کھیلیں۔‘‘
مولانا عبدالاکبر چترالی ایم این اے نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ 157کے قریب اسلامی ممالک ہیں۔ ان کے سربراہاں میں وہ سکت اور وہ جذبہ ، اللہ اور اس کے رسولﷺ اور شعائر اسلام کے ساتھ وابستگی ہونی چاہیے۔ لیکن بشمول پاکستان، کہیں وہ وابستگی نہیں ہے۔ ہمارے حکمران صرف اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں اسلام کے لیے کوئی سوچ، کوئی فکر یا تجاویز و پالیسیاں نہیں ہیں جو اپنانی چاہیں۔
اس وقت تمام اسلامی ممالک میں سے یا میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب یا پاکستان میں سے کوئی ایک ملک میزبانی کے فرائض سرانجام دے اور سب اسلامی قیادت کو ایک جگہ اکٹھا کیا جانا چاہیے۔ اس میں ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، وہاں طے کریں کہ سفیروں کو ان ممالک سے واپس بلایا جائے اور ان کے سفیروں کو نکالا جائے۔ سب تعلقات ختم کیے جائیں۔ سب اسلامی ممالک اس پر متفق ہوں جائیں، صرف ایک ملک سے یہ ممکن نہیں ہے۔ ورنہ احتجاج تو جمعہ کے روز بھی ہوا ہے، پورے پاکستان میں۔ لیکن اس کے اثرات اتنے پائیدار مرتب نہیں ہوئے۔
حقیقی دبائو اسی صورت ہوسکتا ہے کہ تمام امت مسلمہ اکھٹے ہو کرایک ہی پالیسی اس حوالے سے بنا لے۔ رہی علماء کی بات تو ان کا کام ہی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا؟ کیوں کہ وہ قرآن و سنت کے جاننے والے ہیں۔ لیکن اصل بات حکمرانوں کی ہے کہ وہ ان علما کی تجاویز پرعمل درآمد کریں۔ میرے خیال میں چوں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے ، اسے اس حوالے سے پہل کرنی چاہیے۔‘‘