محمد قاسم :
پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کو 3 روز گزر جانے کے باوجود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت کوئی مرکزی رہنما متاثرین کی داد رسی کیلیے نہیں پہنچا۔ جس پر متاثرین دل گرفتہ ہیں۔ ادھر سی سی پی او پشاور نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خودکش حملہ آور سرکاری گاڑی میں آیا تھا۔ ہو سکتا ہے خودکش بمبار پہلے سے پولیس لائن میں موجود ہو۔ کیونکہ یومیہ 2 ہزار اہلکار اور عام شہری پولیس لائن آتے جاتے ہیں۔ جبکہ پشاور دھماکے کے خلاف تاجر ایسوسی ایشن چارسدہ نے احتجاجی ریلی نکالتے ہوئے سانحہ کی پر زور مذمت کی اور حکومت سے قیام امن کا مطالبہ کیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کے شہدا کے لواحقین اور دیگر متاثرین چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی راہ تکتے رہ گئے۔ دھماکے کو 3 روز گزرنے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین سمیت کسی بھی مرکزی لیڈر یا صوبائی رہنما نے متاثرین کی دلجوئی کیلئے پشاور آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی توفیق بھی انہیں اب تک نصیب نہیں ہوئی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے اس بے حسی پر عوام اور خصوصاً سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی ہے۔
دھماکے کے متاثرین بھی دل گرفتہ ہیں کہ 10 سال صوبے پر حکومت کرنے والے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو تین روز گزر جانے کے بعد بھی پشاور آنے اور متاثرین سے ہمدردی کی توفیق نہ ہو سکی۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے کچھ صوبائی رہنما اور سابق وزیر الیکشن کی تاریخ لینے کیلیے گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ پہنچے تھے۔ جہاں سے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا چند ہی منٹ کا راستہ ہے۔ لیکن وہ زخمیوں سے ملے بغیر واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ جس پر پشاورکے شہری بھی انتہائی سخت نالاں ہیں کہ جن کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے عوام نے ووٹ دیا۔ آج انہوں نے ہی ان کو پوچھا تک نہیں حالانکہ پشاور میں قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔
ادھر چیف کیپٹل سٹی پولیس محمد اعجاز خان نے امکان ظاہر کیا ہے کہ خودکش حملہ آور سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس لائنز آیا۔ جبکہ واقعہ بھی بظاہر خودکش لگتا۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کی جگہ سے خودکش حملہ آور کا سر ملا ہے۔ امدادی آپریشن مکمل ہو چکا ہے اور اب ماہرین جائے وقوعہ کا جائزہ لیکر دھماکے کی نوعیت کا پتہ لگائیں گے۔ ہو سکتا ہے حملہ آور پہلے سے پولیس لائنز میں موجود ہو۔ پولیس لائنز میں ایف آر پی، ایس ایس یو، سی ٹی ڈی سمیت آٹھ سے زائد یونٹس کے دفاتر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یومیہ 1500 سے 2000 اہلکار پولیس لائنز آتے اور جاتے ہیں۔ اس لئے یہ امکان ہے کہ حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر آگیا ہو۔ دوسری جانب پشاور پولیس لائنز خودکش حملے کے بعد شہر میں سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر جدید اسلحہ سے لیس اہلکاروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ حساس مقامات کی طرف جانے والے راستوں کو رکاوٹوں کے ذریعے بند کر کے اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے۔جنہیں مکمل جانچ پڑتال کے بعد ہی گاڑیوں اور پیدل افراد کو آمد و رفت کی اجازت دینے کے احکامات ہیں۔
اسی طرح پولیس لائنز میں دھماکے کے بعد باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور ایئر بیس کی سیکورٹی بھی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ باچاخان ایئرپورٹ پر غیر متعلقہ گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جبکہ ایئر پورٹ کے مین گیٹ کے قریب بھی گاڑیاں کھڑی کرنے پر پابندی عائد لگادی گئی ہے۔
دوسری جانب پشاور بم دھماکے میں شہدا کے بلند درجات اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے تاجر ایسوسی ایشن ضلع چارسدہ نے فاروق اعظم چوک میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا۔ ختم قرآن شریف کے بعد سانحہ میں شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کی گئی۔ بعد ازاں تاجر ایسوسی ایشن کے صدر لعل محمد لعل کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف ریلی نکالی گئی۔ جس سے جنرل سیکریٹری میاں رحم بادشاہ، ارشاد علی، ناصر، عطاء الرحمان سمیت دیگر عہدیداروں نے خطاب کیا اور پشاور بم دھماکے کی شدید میں مذمت کی۔ دہشت گردی کو ایک غیر انسانی فعل قرار دیا اور کہا کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی کرے۔ کیونکہ آئے روز بے گناہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی اولین ذمے داری ہونی چاہیے۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے اور امن کے قیام کیلیے موثر کوششیں کی جائیں۔