امت رپورٹ :
پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں سزا سنانے کا وقت قریب آگیا ہے۔ یہ سزا رواں ماہ یا مارچ کے اوائل میں سنائی جاسکتی ہے۔ جس میں ممنوعہ پیسے کا ضبط کیا جانا سرفہرست ہے۔
عدالت عالیہ کی جانب سے اس کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست مسترد کیا جانا پی ٹی آئی کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ جس کے عمران خان اور ان کے پارٹی کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جبکہ اب عمران خان سمیت پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے خلاف کارروائی کے لئے ایف آئی اے کو بھی فری ہینڈ مل گیا ہے۔ جو پہلے ہی اس کیس میں ان تمام کے خلاف تفتیش کر رہی ہے۔
الیکشن کمیشن پاکستان نے گزشتہ برس دو اگست کو تحریک انصاف کے خلاف آٹھ برس سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پی ٹی آئی پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ حاصل کرنا ثابت ہوگیا ہے۔ بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو شوکاز جاری کیا گیا تھا۔ تاکہ پی ٹی آئی شوکاز کے جواب میں اپنا دفاع کرسکے۔ جس کے بعد سزا کا تعین ہونا تھا۔ تاہم پچھلے چھ ماہ سے یہ معاملہ لٹکا ہوا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ، شوکاز نوٹس کا جواب دینے میں پی ٹی آئی وکیل کے تاخیری حربے اور پھر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عدالت میں لے جانا تھا۔
پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی تھی کہ الیکشن کمیشن کا اگست دو ہزار بائیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ اور اس فیصلے کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی کارروائی کو روکنے کا حکم جاری کیا جائے۔ لیکن یہ ساری تدابیر چوپٹ ہوگئیں۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعتوں کے موقع پر موجود ذرائع کے بقول چونکہ الیکشن کمیشن نے اپنے دو اگست کا فیصلہ کارروائی کے لئے وفاقی حکومت کو بھیج دیا تھا۔ جس کی بنیاد پر ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سمیت دیگر پارٹی رہنمائوں کے خلاف مقدمات درج کرکے تفتیش کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
لہٰذا ہر سماعت پر پی ٹی آئی کے وکیل کا اصرار ہوتا تھا کہ عدالت کم از کم وفاقی حکومت کو پارٹی قیادت کے خلاف کارروائی سے روک دے۔ اب جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے پی ٹی آئی کی درخواست خارج کردی ہے تو ساتھ ہی ایف آئی اے کو کارروائی سے روکنے سے متعلق پی ٹی آئی کی کوششیں بھی رائیگاں ہوگئی ہیں۔ یوں اب ایف آئی اے کو عمران خان سمیت دیگر پارٹی رہنمائوں کے خلاف تفتیش کے لئے فری ہینڈ مل گیا ہے۔ جس میں گرفتاریاں بھی خارج از امکان نہیں۔ اسی کیس میں عمران خان کی ضمانت میں پندرہ فروری تک توسیع دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے جمعرات کے روز اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کر دی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کا عدالت سے رجوع کرنا قبل از وقت ہے۔ شوکاز نوٹس سے متعلق کارروائی کے اختتام پر پی ٹی آئی متاثر ہو تو عدالت آسکتی ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کے قانونی اور دیگر مضمرات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کئے جانے کے بعد شوکاز کا مرحلہ جلد اختتام پذیر ہوگا۔ چونکہ پہلے ہی اس معاملے میں چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کو جواب جمع کرانے کے لئے مزید مہلت دینا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے سزا سنادے۔ چنانچہ رواں ماہ کے دوران یا مارچ کے اوائل میں سزا سنانا متوقع ہے۔ اگر پی ٹی آئی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جاتی ہے تو وہاں بھی قبل از وقت رجوع کرنے کا سوال اٹھے گا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں کیا سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد اور دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو امریکہ، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے ملنے والی ممنوعہ قرار دی گئی فنڈنگ ضبط ہونا سرفہرست ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ اور اس فنڈنگ کو وصول کرنے والے بینک اکائونٹس کو انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا نااہلی کی سزا بھی بنتی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ سزا میں فنڈز کی ضبطگی تو یقینی ہے۔ البتہ اس فنڈنگ کو گوشواروں میں چھپانا چونکہ کرپٹ پریکٹس میں آتا ہے۔ لہٰذا ممکنہ طور پر الیکشن کمیشن اس حوالے سے الگ ریفرنس دائر کرکے یہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیج سکتا ہے۔ اس سوال پر کہ اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کی سزا سنادی جاتی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن، تحریک انصاف کو ایک نوٹس بھیجے گا۔ جس میں ممکنہ طور پر یہ کہا جائے گا کہ اتنے پیسوں کی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس رقم کو اتنے عرصے میں فلاں سرکاری بینک اکائونٹ میں جمع کرادیا جائے۔ اگر مقررہ وقت پر یہ رقم جمع نہیں کرائی جاتی تو یہ الگ جرم بن جائے گا اور اس پر علیحدہ سے کارروائی ہوسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے بانی رہنما اور فارن فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست مسترد کئے جانے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لارجر بنچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کا مزید کہنا تھا ’’الیکشن کمیشن کے جس فیصلے کو عمران خان محض ایک رپورٹ قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل لارجر بنچ نے ان کا یہ موقف رد کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ جب میں نے یہ کیس کیا تو میرا موقف تھا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ وصول کرکے قومی سلامتی دائو پر لگادی ہے۔ تاہم اس وقت کے کرتا دھرتا مجھے بلاکر یہ کیس واپس لینے پر اصرار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر میں نے یہ کیس واپس نہیں لیا تو قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
جواب میں میرا کہنا ہوتا تھا کہ چند اشخاص کی سلامتی اور قومی سلامتی میں واضح فرق ہے۔ آپ قومی سلامتی کو پہچانیں۔ ایک سیاسی پارٹی اور اس کے سربراہ کو اتنے بڑے پیمانے پر بیرونی فنڈنگ ہو رہی ہے۔ اس کا یقینا کوئی مقصد ہے۔ آج یہ مقصد سامنے آچکا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست سوائے انتشار کے اور کچھ نہیں۔ وہ سیاست کے نام پر کھلی ملک دشمنی اور اداروں کو بدنام کر رہی ہے۔ جس کا مقصد ملک کو تباہی کی طرف لے جانا ہے‘‘۔