عمران خان :
وزرات داخلہ کی غفلت کے سبب ملکی اداروں کے ساتھ کام کرنے والا اہم ترین ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ابتری کا شکار ہوگیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے 6 ماہ سے سینکڑوں افسران و اہلکار بغیر تنخواہوں کے کام کر رہے ہیں۔ دفتر اور گھروں کے خرچے پورے کرنے کیلیے رشوت ستانی عروج پر پہنچ گئی۔
آمدنی والی انکوائریوں اور کیسز پر توجہ مرکوز ہونے کے باعث سوشل میڈیا پر بلیک میلنگ، ہراسگی اور فراڈ کے شکار ہونے والے لاکھوں شہری انصاف سے محروم ہیں۔ 2007ء میں پہلے فیز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی تعلیم اور تجربہ کی بنیاد پر بھرتی سائبر کرائم ونگ کے افسران گزشتہ 15 برس سے ترقیوں سے بھی محروم ہیں۔ نتیجتاً ان میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ جبکہ ایف آئی اے کے دیگر سرکلز میں 2007ء میں بھرتی ہونے والے افسران ترقیاں حاصل کرچکے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق حالیہ صورتحال میں جب حکومت نے ایف آئی اے کے پاس موجود ایکٹ میں ترمیم منظورکرنے کے بعد بغیر پیشگی عدالتی اجازت نامہ کے انکوائریاں اور مقدمات رجسٹرڈ کرکے گرفتاریوں کا اختیار دے دیا ہے اور اسے فوری طور پر ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے نافذ بھی کرادیا۔ ایسے میں تنخواہوں سے محروم افسران ان اختیارات کا آمدنی کیلیے غلط استعمال کرسکتے ہیں۔
اس وقت ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ تمام صوبوں میں ریاستی اداروں، عدلیہ اور گستاخانہ مواد پھیلانے والوں کے خلاف سینکڑوں اہم انکوائریز میں مصرو ف ہے۔ جن میں صحافی، سیاستدان، عام شہریوں کے علاوہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری افسران کے ساتھ مذہبی شخصیات بھی شامل ہیں۔ جس کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی تعلیم اور تجربہ رکھنے والے سند یافتہ ماہر سائبر کرائم افسران کی ضرورت ہے۔ تاہم پولیس اور ایف آئی اے کے نان ٹیکنیکل افسران انچارجز کی حیثیت سے ایف آئی اے کو چلا رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 (پیکا ایکٹ) جس کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو چلایا جا رہا ہے، یہ اس کی بھی خلاف ورزی ہے۔ رولز کے مطابق اس ونگ کے انچارجز کے لئے بنیادی قابلیت ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں تیسرے فیز میں بھرتی کیے گئے 424 سے زائد افسران اور اہلکار گزشتہ 6 مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ اس ضمن میں وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار رکھا گیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو 15 برس قبل ملک میں سائبر کرائم کی تعداد بڑھنے کے بعداس وقت کی وفاقی حکومت کی جانب سے ایک منصوبہ یعنی آزمائشی پروجیکٹ کی حیثیت سے قائم کیا تھا اور اس کا نام (NR3C) این آر تھری سی یعنی نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائمز رکھا گیا۔
منصوبے کے تحت اس وقت پہلے فیز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئرکی تعلیم اور تجربہ رکھنے والے افسران بھرتی کیے گئے۔ جس کیلئے اس وقت ایف آئی اے پائسس کے ڈائریکٹر عمار جعفری کی جانب سے یہ پروجیکٹ منظور کروایا گیا۔ جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جون 2007ء میں جاری ہوا۔ بعد ازاں اس آزمائشی منصوبے کے تحت ستمبر 2007ء میں فیز ون کی پہلی بھرتیاں شروع ہوئیں۔ جن میں 17 اور گریڈ 18 کے افسران بھرتی ہوئے۔ بعد ازاں جنوری 2008ء میں انسپکٹرز، سب انسپکٹرز اور دیگر ماتحت اہلکار بھرتی کیے گئے۔
آئی ٹی اور فارنسک کے ماہرین ان افسران کی جانب سے اس پروجیکٹ میں ملک بھر میں اگلے 4 برس تک انکوائریاں اور مقدمات کا تجربہ حاصل کیا گیا۔ جس کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے اس پروجیکٹ کو 2011ء میں نان ڈیولپمنٹ یعنی مستقبل شعبہ بنایا گیا اور 2012ء کے وسط میں اس کے پہلے فیز میں بھرتی افسران کو صدارتی منظوری کے بعد مستقل کردیا گیا۔
بعد ازاں جب ملک میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ عام ہونے سے سائبر کرائم کی وارداتیں بڑھ گئیں تو اس شعبے میں فیز ٹو کے تحت مزید بھرتیاں کی گئیں جنہیں مستقل بھی کردیا گیا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر تیسرے فیز کے ملازمین کو بھی یہی صورتحال بھگتنا پڑی۔ جب ان کے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کو مستقل کرنے کا معاملہ لٹکا دیا گیا۔ نہ انہیں فارغ کیا گیا اور نہ ہی انہیں مستقل کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں 2012ء میں ایف آئی اے سائبر کرائمز فیز2 میں بھرتی گریڈ 17 اور 18 کے 31 افسران 2016ء کے آخر سے 2018ء کے شروع تک تقریباً ڈیڑھ برس تک بغیر تنخواہ کے کام کرتے رہے۔ جس کے بعد کہیں جا کر انہیں مستقل کیا گیا۔ رواں مہینوں میں ایک بار پھر وہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ یعنی (NR3C) این آر تھری سی کے تیسرے فیز میں بھرتی کم از کم 243 ملازمین گزشتہ 6 ماہ سے بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں۔ پہلے اس معاملے میں وزارت داخلہ کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا کہ گزشتہ جون میں ان کے کانٹریکٹ کی مدت ختم ہونے کے فوری بعد ان کو مستقل کرنے یا توسیع دینے کا کوئی مراسلہ جاری نہیں کیا گیا۔ جس سے ان کی تنخواہیں رک گئیں۔
تاہم اس معاملے میں دبائو بڑھا کر عارضی طور پر گزشتہ اگست تک دو ماہ کی توسیع دی گئی۔ لیکن اس کے ختم ہونے کے بعد جنوری 2023ء شروع ہونے تک 6 ماہ کے دوران وزارت داخلہ دم سادھے بیٹھی رہی۔ حالیہ دنوں میں وزارت داخلہ کی جانب سے ایک مراسلہ وزارت خزانہ کو جاری کردیا گیا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے 4 سے زائد افسران کو ڈیولپمنٹ فنڈ سے ایف آئی اے کے نان ڈیولپمنٹ فنڈز میں شامل کر لیا جائے۔ تاکہ ان کی تنخواہیں مستقل ہوسکیں۔ لیکن اس پر اب وزارت خزانہ کی جانب سے خاموشی ہے۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول تنخواہوں سے محروم افسران کراچی، کوئٹہ، پشاور اور لاہور کے ایف آئی اے دفاتر میں تعینات ہیں۔ جن کو ایگزیکٹ اسکینڈل، سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اپلوڈنگ، اعلیٰ عدلیہ، پاک فوج اور ریاست کیخلاف مہم کے علاوہ دیگر اہم مقدمات کی تفتیش سونپی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تنخواہیں نہ ملنے کے باعث مذکورہ افسران کو اہم مقدمات کی تحقیقات میں پیشرفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے کا وہ سر فہرست ونگ بن گیا ہے۔ جہاں ہر کچھ عرصہ بعد کرپشن اور بدعنوانیوں کے نئے اسکینڈلز سامنے آجاتے ہیں۔ یہاں تفتیشی افسران ایسی انکوائریوں پر توجہ زیادہ دینے لگے ہیں جن میں آمدنی کے امکانات ہوں۔
گزشتہ عرصہ میں کئی ایسی اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ ملزمان اور درخواست گزاروں سے جلد ایکشن کے لئے یا انہیں ریلیف دینے کے لئے لاکھوں روپے کی رشوت وصولی کے ساتھ ان سے بر آمد ہونے والے قیمتی سامان کی خورد برد کی گئی۔ جس پر کئی انکوائریاں بھی رجسٹرڈ ہوچکی ہیں۔