احمد خلیل جازم:
وفاقی پولیس نے راجہ عنایت الرحمان نامی شہری کی مدعیت میں شیخ رشید احمد کے خلاف تین دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرکے تین روز قبل گرفتار کیا تھا، جس میں نفرت انگیز تقاریر، بغاوت اور عوام کو اشتعال دلانے کی دفعات عائد کی گئی ہیں۔ ان دفعات کے تحت شیخ رشید احمد کو دو مقدمات میں پانچ سے سات برس کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کیسوں میں شیخ رشید کو ضمانت مل جائے گی۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کراچی کے تھانہ موچکو میں بھی سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے خلاف ایک ایف آئی آر کاٹی جاچکی ہے۔ وہاں سے عدالتی حکم پر ایس ایچ او اپنی ٹیم کے ساتھ شیخ رشید کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد روانہ ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد پولیس پر الزامات عائد کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ان کے گھر میں پولیس نے زبردستی گھس کر توڑ پھوڑ کی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ جبکہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے اپنا موقف وفاقی پولیس کو دے چکے تھے۔ دوسری جانب اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کے گھر میں کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے گھر میں بچے تھے۔ الٹا شیخ رشید احمد نے پولیس کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کیا۔ شیخ رشید کی جانب سے منفی پراپیگنڈے کی سختی سے مذمت کی جاتی ہے۔
ان مقدمات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حشمت حبیب کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’کیس تو شیخ رشید پر ٹھیک بنایا گیا ہے۔ کیونکہ جس طرح کی باتیں شیخ رشید کرتے ہیں، اس پر یہ مقدمات بنتے ہیں۔ لیکن اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور اسی وجہ سے انہیں ضمانت مل جائے گی۔ ابھی تو دفعہ 506 کے تحت ریمانڈ پر ہیں جو عدالت نے دینا تھا۔ کیونکہ پولیس کا موقف ہوتا ہے کہ ابھی تفتیش بھی باقی ہے اور کچھ برآمد بھی کرنا ہے۔ اس کیس میں جو دفعات لگائی ہیں، ان میں دفعہ 120 بی ریاست کے خلاف بغاوت، دفعہ 153 اے نفرت انگیز تقریر وغیرہ اور 505 ت پ پر مبنی ہیں۔ ان کی زیادہ سے زیادہ سزا تو پانچ برس ہے۔
شیخ رشید کی گرفتاری بھی 196 بی کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سیاسی کیس ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی، تو انہیں ضمانت مل جانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اصل کیس تو وہ ہوگا جو شیخ رشید نے الزام لگایا ہے۔ یہ الزام سابق صدر آصف علی زرداری پر ہے اس پر سخت کیس ہوگا۔ سابق صدر اگر ان پر ہرجانے کا دعویٰ دائر کریں گے تو پھر شیخ رشید کو ثابت کرنا پڑے گا کہ انہوں نے یہ باتیں کس بنیاد پر کیں؟ ثابت نہ کرنے کی صورت میں انہیں سزا ہوگی‘‘۔
اس سوال پر یہ دفعات قابل ضمانت ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ’’قابل ضمانت اس صور ت میں ہیں جب شیخ رشید کے وکلا دلائل دے کر اسے سیاسی انتقام قرار دیں۔ کیونکہ عدالت انہیں ریمانڈ کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے گی اور پھر کیس کی تاریخ دے گی، تاریخ پر وکلا کے دلائل پر عدالت سیاسی انتقام کی صورت میں مزید انکوائری کا کہہ کر انہیں ضمانت دے سکتی ہے۔ عام کسی شخص پر اگر کیس ہوتا ہے تو عدالت سیکشن دیکھتی ہے کہ وہ قابل ضمانت ہے یا نہیں؟ لیکن وہاں بھی مزید انکوائری کا حق عدالت کے پاس ہوتا ہے اور وہ انہیں بھی ضمانت دے سکتی ہے، یہ تو دفعات پر ڈیپنڈ کرتا ہے کہ وہ کون سی لگائی گئی ہیں؟ شیخ رشید پہلے جوڈیشل لازمی ہوں گے، اس کے بعد مزید انکوائری پر ان کے وکلا جو تاویلات پیش کریں گے، اس پر عدالت مزید انکوائری کے حکم دے کر شیخ رشید کو ضمانت دے سکتی ہے۔
یہ کیس عام کورٹ میں بھی نہیں چلے گا بلکہ اسپیشل کورٹ میں کیس چلے گا۔ ایک تو اینٹی کرپشن وغیرہ کورٹ ہوتے ہوتے ہیں، ایک انسداد دہشت گردی کا کورٹ ہوتا ہے۔ یہ سنٹرل اسپیشل کورٹ میں کیس چلے گا۔ دراصل سیاسی شخصیات کے لیے ان کے وکلا یہ دلائل دے کر کہ سیاسی مقدمہ ہے، ایڈوانٹیج لے جاتے ہیں۔ اس لیے اسے مزید انکوائری کا فائدہ دے کر ضمانت دے دی جاتی ہے۔ اب بھی شیخ رشید کے وکیل نے جب دلائل دینے ہیں تو انہوں نے یہی موقف اپنانا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ عدالت سے ان دفعات کے تحت مزید انکوائری کے نام پر فائدہ حاصل کریں گے اور شیخ رشید جیل سے باہر آسکتے ہیں۔‘‘