قدیمی باشندے ہوٹل کے کھانوں کے دلدادہ تھے-فائل فوٹو
قدیمی باشندے ہوٹل کے کھانوں کے دلدادہ تھے-فائل فوٹو

عراقی تاریخی طور پر ’’باہر کے کھانے‘‘ کیلیے مشہور

محمد علی :
عراق کی سرزمین تاریخی طور پر ’’باہر کے کھانے‘‘ کیلیے مشہور بتائی جاتی ہے۔ یہاں کے قدیمی باشندے ہوٹل کے کھانوں کے دلدادہ تھے اور قہوہ خانوں سمیت دیگر بیٹھکوں پر گہما گہمی رہتی تھی۔ اس حوالے سے امریکی اور برطانوی ماہرین آثار قدیمہ نے 2700 قبل مسیح کا ریسٹورنٹ دریافت کرلیا ہے۔ جس میں 5 ہزار سال پرانا فریج توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ادھر عقرہ نامی ایک عراقی شہر نے ’’پتھر کے دور‘‘ کی یاد دلا دی ہے۔

جکارتہ پوسٹ اور سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین آثار قدیمہ نے عراق میں 5 ہزار برس پرانے ایک ریسٹورنٹ کی باقیات دریافت کی ہیں۔ جس میں اس وقت فریج کے طور پر استعمال ہونے والی جگہ بھی شامل ہے۔ امریکی ٹی وی کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ باہر کھانا عراق کی سرزمین پر 5 ہزار برس پہلے بھی اتنا ہی مقبول تھا۔ جتنا کہ آج ہے۔ عراق میں ماہرین آثار قدیمہ نے 2 ہزار 700 قبل مسیح کے ایک قدیم ہوٹل کو مٹی کے ڈھیر میں سے دریافت کیا ہے۔ عراق کے شمال مشرقی علاقے ذی قار میں تلول العبا میں محققین نے کھدائی کے دوران ایک ہوٹل کی باقیات برآمد کی ہیں۔ یہ ہوٹل ایک کمرے اور کھانے کیلیے کھلی فضا پر مشتمل تھا۔ اس علاقے کا پرانا نام لگاش تھا۔

عراق، امریکا اور برطانیہ کے ماہرین آثار قدیمہ نے 2019ء کے دوران اس علاقے میں کھدائی کا مشترکہ منصوبہ بنایا تھا۔ نئی دریافت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ماہر آثار قدیمہ ریڈ گڈ مین نے سی این این کو بتایا کہ کھدائی کے دوران ٹیم نے محسوس کیا کہ وہ ایک کھلے صحن میں ہیں۔ جس کی کھدائی کرنا مشکل تھا۔ چند ماہ بعد یونیورسٹی آف پیسا کی فیلڈ ڈائریکٹرسارہ پیزیمینٹی نے اس پراسرار صحن میں واپس آنے کے بعد،2022 ء کے موسم خزاں میں خندق کو وسیع کیا۔

محققین نے اس ہوٹل میں ایک کھانے کے لیے کرسیاں، تندور، قدیم کھانے کی باقیات یہاں تک کہ 4 ہزار 900 برس پرانا ایک فریج بھی دریافت کیا ہے۔ تندور کی شکل کے اس حصے میں کھانا محفوظ اور اسے ٹھنڈا کیا جاتا تھا۔ یہ جگہ ہوا سے نمی جذب کر کے وہاں رکھی چیزوں کو ٹھنڈا رکھتی تھی۔

دوسری جانب عراق کا شمالی شہر عقرہ میں اپنی منفرد فن تعمیر کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ اس کا کریڈٹ غیر ملکی وی لاگر کو جاتا ہے۔ جو انٹر نیٹ پر اپنے سفر نامے کی ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں۔ عقرہ شہر جو پتھروں کے دور کی یاد تازہ کرتا ہے، نے گزشتہ کچھ عرصے میں عالمی پذیرائی حاصل کی ہے۔ کیونکہ یہاں تمام تعمیرات ماحول دوست انداز میں کی گئی ہیں۔ یہاں مکان تعمیر کرنے کی غرض سے پہاڑ سے حاصل کردہ پتھر استعمال کیے جاتے ہیں۔

عقرہ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ہر طرف پتھروں کی دیواریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ انجینئر جمیل صدیق نے منفرد شہر کے حوالے سے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’عقرہ شہر بہت پرانا ہے، اور پرانے زمانے میں یہاں سیمنٹ یا کنکریٹ کے بلاکس یا کوئی اور ہائی ٹیک مواد موجود نہیں تھا۔ صرف پتھر تھے جو پہاڑوں سے لائے جاتے تھے اور تعمیر میں انہی کو استعمال کیا جاتا تھا۔ اس وقت لوگوں کے لیے پتھروں سے تعمیر کرنا آسان تھا۔ کیونکہ یہ سستا ہے، اور اس وقت اس کے کاریگر بھی موجود تھے‘‘۔

جمیل صدیق کا کہنا تھا کہ پتھروں کی عمارتیں سیمنٹ سے تعمیر شدہ عمارتوں سے جمالیاتی لحاظ سے زیادہ فنکارانہ لگتی ہیں۔ انجینئر جمیل صدیق کا مزید کہنا تھا کہ پتھر کی دیواریں چوڑی ہوتی ہیں۔ کنکریٹ کے بلاکس صرف بیس سینٹی میٹر چوڑے ہو سکتے ہیں۔ جبکہ پتھر چالیس سے ساٹھ سینٹی میٹر چوڑے ہوتے ہیں۔ لہذا یہ موٹائی گرمیوں یا سردیوں میں تھرمل موصولیت فراہم کرتی ہے۔عقرے کے رہائشی مجید نے بتایا کہ ان کے پاس ایئر کنڈیشنر نہیں ۔ لیکن انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔