کراچی : مفتیِ اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ اسلامی مقدّسات کی توہین کے سدِّباب کے لیے مسلم حکمران موثر سفارتی اوراقتصادی اقدام کریں،ناموسِ صحابہؓ واہلِ بیتؓ بل کو جلد سینیٹ سے پاس کراکے ایکٹ بنایا جائے اور نافذ کیا جائے۔
مفتی منیب الرحمٰن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سودی نظام کے خاتمے کیلیے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کے لیے زبانی یقین دہانی کے بجائے عملی اقدام کرے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ استصوابِ رائے کا وعدہ پورا کرے ،اُن کے بنیادی انسانی حقوق کو بحال کرے،
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خود کش حملوں سمیت دہشت گردی کی ساری کارروائیاں حرامِ قطعی ہیں ، اسلام دشمنی ہے ،انسانیت دشمنی ہے،ہم ملک کی سلامتی کے لیے ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں،
قبل ازیں دارالعلوم نعیمیہ میں علمائے اہلسنّت کا ایک بڑا اور نمائندہ اجتماع مفتی منیب الرحمٰن کی صدارت میں منعقد ہوا اور حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے،امریکا اور یورپی ممالک میں وقفے وقفے سے اسلامی مقدسات کی اہانت کے واقعات رونما ہورہے ہیں، حال ہی میں سویڈن میں قرآنِ کریم کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ مسلمانانِ عالَم اِس پر شدید کرب اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، اہلِ مغرب نے آزادیِ اظہار اورآزادیِ تقریر کو عقیدے کا درجہ دے رکھا ہےاور وہ اس پر کوئی قدغن لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
علمائے اہلسنّت کا یہ عظیم اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ جسمانی اذیت وآزار کی طرح ذہنی وروحانی اذیت وآزار کو بھی عالمی سطح پر دہشت گردی قرار دیا جائے اور ان مجرموں کو بھی عبرت ناک سزائیں دی جائیں ۔
اعلامیے کے مطابق نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کی جو لہر مغرب میں چلی ہے، وہ تھمنے کو نہیں آرہی، اسلام اور مسلمانوں کویکطرفہ طور پر دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ہم معنی قرار دے دیا گیا ہے، حالانکہ امریکہ سمیت مغرب میں آئے دن دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں، لیکن مغرب میں دونوں کے لیے معیارات مختلف ہیں، کوئی مسلمان جرم کرے تو اُسے اس کے مذہب اور وطنِ اصلی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور کوئی غیر مسلم جرم کرے تو وہ ایک فرد کا جرم قرار پاتا ہے، مغرب کی یہی روش تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اگرچہ ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ پورا عالَمِ انسانیت ہمارے دینی مقدسات کا احترام کرے ، لیکن یہ غیر مسلموں سے ہمارا مطالبہ نہیں ہے، ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے مقدسات کی توہین بند کی جائے، اس سے عالَمی امن کو خطرات لاحق ہوتے ہیں ، چند سال پہلے یورپی عدالت بھی قراردے چکی ہے کہ آزادیِ اظہار کی آڑ میں دوسروں کو اذیت پہنچانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ہم مسلم ممالک کے سربراہان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جن ممالک میں اسلام کی دینی مقدسات کی توہین ہو ، تمام مسلم ممالک اُن کا سفارتی اور اقتصادی بائیکاٹ کریں ،موجودہ دور میں یہی ایک حربہ ہے جو کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
یورپی یونین کی منافقت اور تضاد کا عالَم یہ ہے کہ جب ایک شخص نے سویڈن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے تورات کا نسخہ جلانے کا اعلان کیا تو اسرائیلی سفارت خانہ متحرک ہوا اور سویڈن کی حکومت کے ساتھ مل کر اسے رکوانے کا جواز یہ بنایا کہ اس سے نفرت کو ہوا ملتی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جرمنی نے یورپی یونین اور قومی پرچم جلانے پر تین سال کی سزا مقرر کی ہے ،کیونکہ ان کے بقول اس سے لوگوں میں نفرت ، غصہ اور جارحانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور لوگوں کو ذہنی اذیت پہنچتی ہے، ہمیں افسوس ہے کہ سویڈن میں ستاون مسلک ممالک کے سفارت خانے موجود ہیں ، لیکن وہ اسرائیل کی طرح متحرک نہیں ہوئے ۔ کیاقرآنِ کریم جلانے سے امنِ عالَم کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ذہنی اذیت نہیں پہنچتی ،انسانیت میں نفرت ، غصہ اور جارحیت پیدا نہیں ہوتی، یہ سب باتیں مغرب کی منافقت ، تضادات پر مبنی پالیسی اور مسلم حکومتوں کی دینی بے حمیتی کی واضح دلیل ہے۔
اپریل 2022میں فیڈرل شریعت کورٹ نے حرمتِ ربا کا فیصلہ صادر کیا ہے اورحکومتِ پاکستان کو پابند کیا ہے کہ پانچ سال کے اندر ملک کے پورے مالیاتی اور بینکاری نظام کو اسلامی شریعت کے مطابق بنایا جائے ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا چارٹر بنیادی طور پر سودی فلسفہ معیشت پر قائم ہے ، اس چارٹرمیں جوہری تبدیلیاں کی جائیں ، نیز اسلامی بنکوں کے لیے دوہرے ٹیکس کو ختم کیا جائے تاکہ حیلوں اور اعتبارات کی ضرورت نہ رہے اوراسلامی بنکوں کی تمام پروڈکٹس کسی حیلے کے بغیر شریعت کے مطابق ہوجائیں۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر متعلقہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے ، نیز حکومت عہد کرے کہ آئندہ تمام قومی اور بین الاقوامی مالی معاملات اور معاہدات غیرسودی بنیادوں پر طے کیے جائیں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے علمائے اہلسنّت کا یہ عظیم اجتماع سپریم کورٹ آف پاکستان سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ میں ماہر علما کو شامل کر کے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر تمام مقدمات کا تین ماہ میںفیصلہ کرے ، نیز بینکنگ کورٹس کو پابند کیا جائے کہ اسلامی بنکوں کے حق میں یااُن کے خلاف دائر مقدمات کے لیے قواعد وضوابط کو شریعت کے مطابق بنایا جائے اور مالی مقدمات کے فیصلوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کیا جائے۔یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ اسلام کے قانونِ وراثت کو باقاعدہ قانون سازی کر کے اجباری اور لازمی بنایا جائے ، عورتوں کامختلف حیثیتوں میں وراثت میں جو حصہ بنتا ہے، وہ انھیں دلایا جائے تاکہ ارتکازِ دولت ختم ہو ، دولت کی منصفانہ تقسیم کی راہ ہموار ہو، نیز کم از کم مشاہرہ اتنا مقرر کیا جائے کہ ایک چھوٹے خاندان کا گزر اوقات ہوسکے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے علمائے اہلسنّت کا یہ عظیم اجتماع قومی اسمبلی کی جانب سے ناموسِ صحابہ واہلِ بیت کے بِل کو پاس کرنے پر ارکانِ قومی اسمبلی کی تحسین کرتا ہے اور سینیٹ آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بھی اس بل کو جلد منظور کریں تاکہ یہ نافذ العمل قانون کی شکل اختیار کرسکے اور پھر اس قانون کو کسی امتیاز کے بغیرنافذ کیا جائے۔ایک فرقے کے علما اور مذہبی تنظیمیں اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں ، اُن کی منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ اُن سے اُن کے عقائد کے خلاف کسی کے احترام کا مطالبہ نہیں کیا جارہا، بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ کوئی اہلسنّت کے مسلّمات یعنی صحابہ واہلِ بیت کی توہین نہ کرے اور یہ مطالبہ عقل ونقل کی رُو سے جائز ہے۔
اعلامیے کے مطابق قرآنِ کریم نے توبہت پہلے سدِّذرائع کے طور پر کفار کے معبودانِ باطلہ کو برا کہنے سے منع فرمایا تھا، ارشاد ہوا: مسلمانو!یہ لوگ اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں، تم انھیں گالی نہ دو،ورنہ وہ سرکشی اور جہالت سے اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے، (الانعام:108)۔مقامِ حیرت ہے! جو ضمانت قرآنِ کریم کفار ومشرکین کو دیتا ہے، یہ لوگ مسلمانوں کو وہ ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جبکہ ان کے اکابر برملا یہ بیان دے چکے ہیں کہ ایران کے مذہبی اکابر نے اہلسنّت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دیا ہے۔ہمارا ملک پہلے ہی سیاسی انتشار اورمعاشی بربادی سے دوچار ہے، کیا وہ اس میں ایک نیا مذہبی تنازع کھڑا کرنا چاہتے ہیں،اپنی نفرتوں کے پرچار کے لیے قوم کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں ، جبکہ مین اسٹریم میڈیا میں آکر اتحادِ امت کی باتیں کرتے ہیں، یہ تضاد ناقابلِ فہم اور ناقابلِ برداشت ہے ۔
اعلامیے میہں کہا گیا ہے کہ علمائے اہلسنّت کا یہ عظیم الشان اجتماع مقبوضہ کشمیر وفلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ بھارت نے اقوامِ متحدہ میں جو استصوابِ رائے کا وعدہ کیا تھا، اُسے پورا کرایا جائے ،نیز کشمیر کی متنازع فیہ حیثیت کو بھارت کے دستوری نظام میں بحال کیا جائے، کشمیر کے بعض حصوں کو بھارت میں ضم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے اور بھارت کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہا ہے، اُسے اس سے روکا جائے، حکومتِ پاکستان سے مطالبہ ہے کہ عالمی فورموں پر مسئلہ کشمیر کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔
اعلامیے کے مطابق علمائے اہلسنّت کا یہ نمائندہ اور بڑا اجتماع پولس لائن پشاور کی مسجد میں عین حالتِ نماز میں خود کش حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، علمائے اہلسنّت کا ہمیشہ سے طے شدہ موقف ہے کہ خود کش حملوں سمیت دہشت گردی کی تمام کارروائیاں حرامِ قطعی ہیں ،یہ فساد فی الارض ہے،قتلِ ناحق ہے ،انسانیت کے خلاف وحشیانہ اور سنگ دلانہ جرم ہے اور اس کے لیے قرآنِ کریم میں شدید ترین سزامقرر کی گئی ہے، اس کے سہولت کاروں کے پورے نیٹ ورک کو تلاش کر کے اس فتنے کو جڑ سے ختم کیا جائے، اس کو شریعت کا جواز فراہم کرنا بھی دین کی فاسد تعبیر ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ علمائے اہلسنّت کا یہ اجتماع امارتِ اسلامیہ افغانستان کو یہ باور کراتا ہے کہ پاکستان کی دینی قوتوں نے ہمیشہ سوویت یونین اور امریکا کے خلاف اُن کی جائز جدّوجہد کی غیرمشروط حمایت کی ہے، ماضی میں بہت سے تلخ تجربات بھی ہوئے ہیں، لیکن ہماری اُن سے اپیل ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو شرعی بنیادوں پر از سرِ نو استوار کریں ،حقِ ہمسائیگی ادا کریں، اپنے وطن میں پاکستان دشمن عناصر کو پناہ نہ دیں اور اُن کی کمین گاہوں کو ختم کریں ، اُن کا ایجنڈا شریعت سے متصادم ہے،خلافِ اسلام ہے اور وطن سے غداری ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم ملک کی سلامتی کے لیے ریاستی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔