شیخ رشید اڈیالہ کے ڈیتھ سیل نمبر دو میں بند

احمد خلیل جازم :
شیخ رشید کو عدالتی حکم پر اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کردیا گیا ہے۔ جہاں انہیں ڈیتھ سیل نمبر دو میں رکھا گیا ہے۔ یہ وہی ڈیتھ سیل ہے جہاں ممتاز قادری شہید کو بھی رکھا گیا تھا اور وہیں سے انہیں تختہ دار لے جایا گیا تھا۔

شیخ رشید کو گزشتہ دو روز قبل مقامی عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے قتل کی سازش کے الزام میں پولیس کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور نہ ہونے کے باعث جوڈیشل کیا گیا۔ تفتیشی افسر کی جانب عدالت کو درخواست کی گئی کہ شیخ رشید کے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ کیونکہ ابھی پولیس نے شیخ رشید کا وائس میچنگ ٹیسٹ کرایا ہے اور ان کا فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کرانا باقی ہے۔ اس موقع پر شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ جس طرح انہیں تھانے میں رکھا گیا۔ اس سے بہتر تھا کہ انہیں موت کی سزا سنا دی جاتی۔ ان کے ہاتھ باندھ کر رکھے گئے اور انہیں سونے نہیں دیا گیا۔

انہوں نے عدالت کے روبرو یہ بھی الزام عائد کیا کہ پولیس ان سے سیاسی تفتیش کرتی رہی۔ مقدمے کے بارے میں کوئی سوال جواب نہیں ہوئے۔ پولیس والے ان سے پوچھتے رہے کہ عمران خان کی سیاسی مہم چلائو گے تو ان کا جواب تھا ہاں چلائوں گا۔ وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعد ازاں عدالت نے پولیس ریمانڈ کی درخواست رد کرتے ہوئے شیخ رشید کو اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔ اڈیالہ جیل میں اس سے قبل بھی وہ اس وقت رہ چکے ہیں۔ جب انہیں کلاشنکوف کے مقدمے میں سات برس کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس وقت شیخ رشید نے میانوالی، بہاولپور سنٹرل جیل کے ساتھ اڈیالہ سنٹرل جیل میں بھی وقت گزارا تھا۔

’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ شیخ رشید دو روز قبل جسمانی ریمانڈ پر اڈیالہ لائے گئے۔ اس وقت میڈیا پر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ انہیں ہائی سکیورٹی زون کے سیل میں رکھا گیا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ انہیں سیل نمبر دو میں رکھا گیا ہے۔ یہ دو چکیوں کا اسپیشل سیل بنا ہوا ہے اور اسے کال کوٹھری یعنی ڈیٹھ سیل کہا جاتا ہے۔ جہاں ممتاز قادری شہید نے کچھ دن بسر کیے تھے۔ وہاں پھانسی پانے والے قیدیوں کو آخری ایام میں رکھا جاتا ہے۔ یہ قید تنہائی ہوتی ہے۔ لیکن شیخ رشید کے لیے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہر وقت ڈیوٹی پر حاضر رہتا ہے۔

شیخ رشید اس وقت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سرفراز کی زیر نگرانی ہیں۔ چونکہ اکثر اس سیل میں تنہائی سے تنگ آکر قیدی خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے عام لوگوں کے لیے اس وقت ایک دو سپاہی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ لیکن سیاسی قیدیوں کے لیے اسپیشل ڈپٹی سپرٹنڈنٹ کو ذمہ داری جاتی ہے۔ اس سے قبل فواد چوہدری کو بھی اسی جگہ قید رکھا گیا تھا۔ یہ سیل جیل کے اندر سینٹرل ٹاور کے نزدیک ہی واقع ہے۔

دراصل یہ سیل پہلے ڈیتھ سیل والوں کے لیے مختص تھے۔ بعد ازاں اس میں خطرناک شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو رکھا جاتا رہا۔ چونکہ کچھ عرصہ قبل وہ تمام خطرناک دہشت گرد ساہیوال ہائی سیکورٹی زون منتقل کر دیئے گئے تھے۔ اس وجہ سے یہ سیل خالی ہوچکے تھے۔ اب یہ دو سیل ایسے سیاسی قیدیوں کے لیے مختص ہیں۔ جو دو چار روز کے لیے جوڈیشل ہوکر آتے ہیں۔ اس کمرے میں چار سے پانچ لوگ رہ سکتے ہیں۔ یہ 12×10 کا سیل ہے۔ ایک کمرے میں ایک بندے کا ڈھائی فٹ پیمائش کا حساب رکھا جاتا ہے۔

یہاں اگر چار یا پانچ بندے رہ سکتے ہیں تو اس حساب سے ہی یہ دس بارہ کا ایک چوکور سیل بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اٹیچ باتھ فلیش سسٹم موجود ہے۔ جو اسی کمرے سے متصل ہے۔ لیکن اس کا دروازہ نہیں ہوتا۔ وہاں نہانے کے لیے ایک ٹونٹی ہوتی ہے۔ ویسے تو ایسے سیاسی قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے۔ لیکن وہ ہوم سیکریٹری منظور کرتا ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات کے پاس بھی بی کلاس دینے کا اختیار نہیں۔

بی کلاس پراسس میں سات سے آٹھ یوم لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ سپرنٹنڈنٹ جیل، ڈی آئی جی کو، اور ڈی آئی جی، آئی جی کو لکھ کر بھجواتا ہے۔ وہ اس درخواست کے ساتھ کورنگ لیٹر لگا کر ہوم سیکریٹری کو بھجواتا ہے۔ جو اس درخواست کو اسی پراسس سے واپس بھجواتا ہے۔ ایسے قیدیوں کو بی کلاس لازمی مل جاتی ہے کہ یہ ان کا حق ہوتا ہے۔ لیکن تھوڑا عرصہ رہنے والوں کو انہیں چکیوں میں رکھا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق شیخ رشید پر جو کیسز ہیں، وہ قابل ضمانت ہیں اور ہو سکتا ہے آج پیر تک ان کی ضمانت منظور ہوجائے۔ اس لیے انہیں بی کلاس کے لیے فی الحال ریکمنڈ نہیں کیا جارہا۔ قبل ازیں شیخ رشید اڈیالہ جیل میں بی کلاس کی سہولت لیتے رہے ہیں۔ پہلے جب شیخ رشید نے جیل کاٹی تھی تو وہ دور شیخ کے عروج کا دور تھا۔ شیخ رشید اس وقت مکمل ’کن ٹٹوں‘ کی طرح جیل میں رہے۔ ہر طرح کی سہولت سے فیض یاب ہوتے رہے اور دھونس جمائے رکھی۔ اس وقت انہیں مشقتی بھی مہیا کیے گئے تھے اور وہ اپنی مرضی سے کھاتت پیتے اور جو چاہتے وہ باہر سے منگوا لیتے تھے۔

ان دنوں شیخ رشید سے اس وقت کی جیل انتظامیہ خوش نہیں تھی۔ کیونکہ وہ انہیں ہر جائز ناجائز بات کے لیے اکثر اوقات تنگ کیے رکھتے تھے۔ لیکن ان دنوں ان کا زہر کافی حد تک نکل گیا ہے، اور وہ گزشتہ رات بھی کافی پریشانی کے عالم میں رہے۔ دوائیں مستقل کھارہے ہیں اور پرامید ہیں کہ چونکہ ان کی راہداری درخواست مسترد ہونے پر انہیں اڈیالہ جیل بھیجا گیا ہے۔ اس لیے وہ یہیں سے نکل جائیں گے اور ان کی ضمانت ایک دو روز میں ہوجائے گی۔