اردو لغت بورڈ کی 41 آسامیاں خالی-ماہرین کا بحران

کراچی(امت نیوز)غیرمعمولی قومی اہمیت کے ادارے ’اردولغت بورڈ‘ میں ماہرین کی شدید قلت بحران کی کیفیت اختیار کرچکی ہے۔ادارے میں اس وقت اردو لغت کی تدوین کا ایک ہی باقاعدہ ماہر کام کررہا ہے،جبکہ 55 اسامیوں پر صرف 14 افراد کام کررہے ہیں۔یوں 1973 کے آئین کی شق 251 کے تحت قومی زبان اردو کو سرکاری سطح پر رائج کرنے کے اقدامات بھی نظر نہیں آرہے۔سب سے بڑھ کر اردو ڈکشنری بورڈ کے تحت گزشتہ 6 برس میں کوئی نہیں جلد سامنے نہیں آسکی اور یہاں طلبہ و طالبات کی آمد بھی انتہائی کم ہے۔تفصیلات کے مطابق اردو لغت بورڈ کی 55 اسامیوں میں سے 41 کے خالی ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور صرف 14 افراد ان اسامیوں پر کام کر رہے ہیں۔دوسری جانب ماہرین میں ایک شخص اسکالرز کی اسامیوں پر لغت کا کام کررہا ہے۔باقی تمام افراد مختلف گریڈزکے دفتری ملازم ہیں۔وفاقی حکومت کی جانب سے بھرتیوں کے لیے ابھی کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔سن 1973ء کی آئین کی شق 251 کے تحت قومی زبان کو سرکاری و دفتری سطح پر رائج کرنے کیلیےکوئی بھی سنجیدہ اورٹھوس اقدامات ناپید دکھائی دیتے ہیں۔ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمید نے نجی چینل کو بتایا کہ اس عمارت میں پیشہ وارنہ ذمہ داریوں پر مامور افرادی قوت کی کمی کا یہ عالم ہے کہ ایک فرد تین افراد کا کام کررہاہے۔عمارت کو دوبارہ فعال رکھنے کے لیے دوبارہ افتتاح تو کردیا گیا،لیکن بورڈ کی بہتری کے لئے اقدامات نہیں کیے جارہے۔انہوں نے کہا کہ فرمان فتح پوری،جمیل جالبی،دیگر نامور اور گرانقدر شخصیات نے سن 1985 میں اس عمارت کی بنیاد رکھی۔یہ بات کسی بھی زندہ اور ادب کے دلدادہ معاشرے کے لیے قطعی طورپر مناسب نہیں کہ تہذیب سے جڑے اداروں کو کمزور یا پھر مکمل طور پر معدوم ہوتے خاموشی سے دیکھا جائے۔راشد حمید کے مطابق ان اداروں کو وفاق میں ضم کرنے کا فیصلہ بھی کوئی مناسب قدم نہیں تھا۔تنظیم نو میں ادارے کا حجم اور ملازمین کی تعداد اور بھی کم ہو جائے گی۔پھر ضرورت کے وقت جتنے ماہرین درکارہوں گے۔وہ دستیاب نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ عموماً لوگ یہ رائے دیتے ہیں کہ ڈکشنری 22 جلدوں پر بن گئی،تو اب کیا ضرورت ہے،جبکہ اس کے مقابلے میں اگر آکسفورڈ ڈکشنری کا جائزہ لیں تووہ اپنے سابقہ حجم سے پہلے سے وسیع ہوتی جارہی ہے۔زبانیں زندہ ہوتی ہیں۔زبانوں میں پرانے لفظوں میں ترمیم کی جاتی ہے۔میٹرک انٹر طلبہ کے لئے مختلف درجوں کے لئے اسی میں سے ڈکشنری نکلنی چاہیے اورغالب میرکی فرہنگ تیارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ لفظوں کی وسعت بہتر طور پر سامنے آسکے۔انہوں نے اہم افراد کی سرپرستی اور ڈکشنری کی اہمیت پر بھی زور دیا۔اردو یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو یاسمین سلطانہ نے بتایا کہ اردو ڈکشنری بورڈ سے پچھلے 6 سالوں سے منظرعام پر کچھ نہیں آیا نہ ہی کوئی نئی جلد آئی۔طلبہ کی یہاں آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔اردو ڈکشنری بورڈ کو گمنامی میں ڈوبنے سے بچانے کے لئے وزیراعظم کے مشیر امیر مقام نے عمارت کی تزئین و آرائش کرکے دوبارہ زندہ کیا تاکہ طلبہ یہاں کا رخ کریں اور قومی زبان کی اہمیت کو سمجھیں۔اس سے قبل اُردو لغت بورڈ،کراچی کی نو تعمیر و تزئین شدہ عمارت کے افتتاح کے سلسلے میں مشیر برائے وزیر اعظم انجینئر امیر مقام نے اُردو لغت بورڈ،کراچی کا دورہ کیا اور عمارت کا باضابطہ افتتاح کیا۔