عمران خان :
پاکستان اسٹیل ملز کے 400 ارب روپے سے زائد کا خسارہ پہنچانے والے کارروائیوں سے بچ گئے اور اب اسٹیل ملز کا بچا کھچا ڈھانچا نوچا جا رہا ہے۔ اسٹیل ملز کی چیئرمین شپ عارضی طور پر چیئرمین ایکسپورٹ پروسسنگ زون اتھارٹی کو سونپے جانے کے بعد مرکزی پلانٹ اور دیگر مقامات سے کروڑوں روپے کے سامان کی چوریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے سی ایم ڈی سیکورٹی افسر انجینئر عبدالرحمن کی جانب سے ادارے کے اعلیٰ حکام کو کرپشن کے حوالے سے پہلا مراسلہ جون 2022ء میں لکھا گیا۔ جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ 10 ارب روپے کے سامان کی چوریوں میں مبینہ طور پرکرنل ریٹائرڈ طارق خان کو چوریوں کا ماسٹر مائنڈ لکھا گیا۔ ان کے ساتھ سابق سیکیورٹی انچارج کیپٹن ریٹائرڈ بابر برنارڈ، سابق انچارج سیکیورٹی کیپٹن ریٹائرڈ برجیس عباس کاظمی، منیجر سیکیورٹی مین پلانٹ میجر ریٹائرڈ محمد علی، سیکیورٹی آفیسر مین پلانٹ امیر علی، پی ایس پی ایس کے سابق انچارج سید سعادت علی، سیکورٹی ویجیلنس انچارج محمد یعقوب اور انچارج اے اینڈ پی ریاض حسین منگی بھی ملوث ہیں۔ کیونکہ یہ وارداتیں انتہائی سخت سیکورٹی کی دو تہوں یعنی لیئرز کے باجود ہورہی ہیں۔ جو اسٹیل ملز کی دیواروں اور اطراف میں موجود ہے۔
اس مراسلے کے بعد 18 جولائی 2022ء کو حکومت پاکستان کے صنعت و پیداوار ڈویژن کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو 18 جولائی کو ایک مراسلہ ارسال کیا گیا۔ جس میں بتایا گیا کہ انجینئر عبدالرحمن کی جانب سے اسٹیل ملز کے اعلیٰ حکام کو مرکزی پلانٹ سے کروڑوں روپے کے سامان کی چوریوں کی مسلسل کئی وارداتوں کے حوالے سے مراسلے لکھے گئے۔ جن میں الزام عائد کیا گیا کہ یہ وارداتیں اسٹیل ملز کے کئی سینئر اور جونیئر افسران کی ملی بھگت سے ہو رہی ہیں۔
مراسلے میں ڈی جی ایف آئی اے کو اس معاملے پر انکوائری کرنے کے لئے کہا گیا۔ اسی طرح 20 جولائی 2022ء کو قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ سے ایک مراسلہ ایف آئی اے ڈی جی سمیت متعلقہ حکام کو جاری کیا گیا کہ اسٹیل ملز کی پیپلز ورکرز یونین کی جانب سے ادارے میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور چوریوں کے حوالے سے لکھے گئے مراسلے پر یکم اگست کو اسمبلی میں بات کی جائے گی۔ جس کے لیے ابتدائی رپورٹ ارسال کی جائے۔ تاکہ اس معاملے پر رپورٹ پبلک اکائونٹ کمیٹی اور قائمہ کمیٹی کو بھجوا کر مزید کارروائی کی جاسکے۔
’’امت‘‘ کو 2012ء کے اسٹیل ملز کی دستاویز سے معلوم ہوا کہ کلیئرنس ڈپارٹمنٹ کے مراسلے کے بعد جو رپورٹ موصول ہوئی تھی۔ اس میں اسٹیل ملز کے ورکنگ ڈپارٹمنٹ، سیکورٹی ڈپارٹمنٹ، ڈسپلنری سیل، ایڈوانس سیکشن، فائنل اکائونٹ سیکشن، لیگل اینڈ لا ڈپارٹمنٹ، پاور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک ڈپارٹمنٹ، ٹائون شپ ڈپارٹمنٹ، بی ڈبلیو ایس ڈی واٹر فیسلٹی، گلشن حدید کمیٹی، ڈیولپمنٹ سیل، ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ، ایجو کیشن ڈپارٹمنٹ، میڈیکل ڈپارٹمنٹ اور گیسٹ ہائوس سمیت دیگر شعبوں پر کسی قسم کے بقایات اور قرضہ نہیں تھا۔ بلکہ اسٹیل ملز اربوں روپے کے سالانہ منافع پر چل رہی تھی۔ تاہم بعد ازاں 2018ء سے 2022ء کے دوران 284 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ جس کی بڑی وجہ نااہل بورڈ آف ڈائریکٹرز، ادارے کے تمام ڈپارٹمنٹس میں کرپشن کا راج اور حکومت کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ بدعنوان افسران کے خلاف انکوائریز اور کیسز کا دبایا جانا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ادارے پر 36 ارب روپے سوئی سدرن گیس کمپنی کے واجب الادا ہیں۔ اسی طرح اسٹیل کے اعلیٰ کوالٹی کے اربوں روپے مالیت کے تیار بار اور خام مال، اسٹیل ملز کو بجلی سپلائی کرنے میں بھاری کرپشن اور میڈیکل ڈپارٹمنٹ میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے کیسز پہلے ہی ایف آئی اے میں ٹھکانے لگائے جاچکے ہیں۔ ان میں ملوث مرکزی ملزمان صاف بچ نکلے ہیں۔ جبکہ اب ملک کے قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھنے والے اسٹیل ملز کا بچھا کچھا ڈھانچا سامان چوری نوچا جا رہا ہے۔
ڈی آئی جی ایسٹ اور ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کو ملنے والی معلومات کی روشنی میں ایک اہم کارروائی کی گئی۔ جس میں سامان چوری کے سرگرم کارندے کباڑی اختر علی کو اس کے 4 ساتھیوں گرفتار کیا گیا۔ اختر علی ان درجنوں کباڑیوں میں سے ایک ہے۔ جن کیلئے اسٹیل ملز میں سرگرم نیٹ ورک سامان نکال کر باہر رکھ دیتا ہے اور یہ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور پیسے دے دیتے ہیں۔
ملزم نے انکشاف کیا کہ اسے ایس ایچ او بن قاسم ٹائون کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ ایس ایچ او ملک اشرف کے بعد ایس ایچ او ادریس بنگش، ڈی ایس پی اور ہیڈ محرر کو پیسے دیتا ہے۔ تھانے کے اخراجات بھی وہ اٹھاتا ہے۔ گرفتار ملزمان میں اختر علی چانڈیو، اظہر علی، سرفرار علی گوپانگ، اعجاز علی شیخ اور علی شیر ابڑو شامل ہیں۔ جبکہ سرغنہ کے 4 ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ گرفتار ملزمان کے قبضے سے 3 موبائل فون، چند سو روپے اور 2 سوزوکیوں سے بنڈلوں کی شکل میں کیبل وائر برآمد ہوئے۔ گرفتار ملزمان نے مفرور ساتھیوں کے نام موسیٰ، نعیم، مظہر اور جاوید بتائے ہیں۔ کباڑی نے انکشاف کیا کہ اسٹیل ملز سے ایک جیسا سامان نہیں نکلتا۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ سامان ہوتا ہے۔ لیکن اس کے پیسے فکس ہیں۔
اسٹیل مل کے سیکیورٹی گارڈز سے سیٹنگ ہوتی ہے۔ جن کے ذریعے وہ سامان اسٹیل ملز سے نکالتے ہیں اور باہر سڑک پر رکھ دیتے ہیں۔ جو وہاں سے اٹھالیا جاتا ہے اور جسے گودام لانے کے بعد آگے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ کباڑی نے بتایا کہ وہ اسٹیل ملز سے نکالے جانے والا سامان جاوید، نعیم، ناصر اور مظہر کو فروخت کرتا ہے۔ شیر شاہ کی پارٹیاں سامان لینے آتی ہیں اور اپنی گاڑیوں میں لوڈ کرکے لے جاتی ہیں۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق 4 ماہ قبل جب ایف آئی اے میں اس معاملے پر کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں ڈی جی کی ہدایات پر انکوائری شروع کی گئی تھی۔ اس وقت کارکردگی دکھانے کیلیے ایف آئی اے نے اسٹیل ملز سے اربوں روپے کے سامان چوری اسکینڈل کی تحقیقات کو جلد مکمل کرنے کیلیے ملز کے اندر ہی عارضی دفتر قائم کرلیا تھا۔ اگست کے مہینے میں اتنی بھاگ دوڑ دکھائی گئی کہ ایف آئی اے ٹیم نے کئی روز تک پورا پورا دن یہاں گزارے۔ متعلقہ افسران سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی گئی۔ ریکارڈ سامنے رکھ کر قلمبند کئے جانے والے بیانات انکوائری کا حصہ بنائے گئے۔ تحقیقات کے دوران مختلف متعلقہ ڈپارٹمنٹس اور دفاتر میں آمدروفت بند کردی گئی۔
اسی دوران یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اسٹیل ملز میں سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کے افسران اور دیگر متعلقہ حکام کی ملی بھگت سے سامان کی چوری کی درجنوں وارداتیں رونما ہوتی رہیں۔ تاہم ایک واردات ایسی بھی کی گئی جس میں کئی درجن غیر متعلقہ افراد کئی گھنٹوں تک رات کے اندھیرے میں دندناتے رہے اور 10 کے قریب ٹرک ساتھ لائے۔ ان ٹرکوں میں اسکریپ، اسٹیل، آئرن وغیرہ لا د کر باہر منتقل کیا جاتا رہا۔ اس واردات میں ان ٹرکوں نے کئی چکر لگائے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اس اسکینڈل پر ایف آئی اے نے بعد ازاں خاموشی اختیار کرلی۔