احمد خلیل جازم :
جاپان میں ایسی تیز رفتار ترین ٹرین متعارف کرائی جا رہی ہے۔ جو ہوائی جہاز کی رفتار سے چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مقناطیسی نظام کے تحت چلنے والی یہ ٹرین اب تک تیز ترین ٹرین کہلاتی ہے۔
اپنی ریکارڈ رفتار کے مطابق، جاپانی میگلیو L0 سیریز کی رفتار 603 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ دوسری جانب چین بھی پیچھے نہیں رہا اور اس نے بھی اسی دوران جاپان کی L0 سیریز کو چین کی ’میگلیو 2021ء سی آر آر سی‘ ( CRRC 2021 Maglev ) کو قریب سے جا پکڑا ہے۔ چین کی اس ٹرین کی رفتار 600 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں ٹرینیں ابھی تک مکمل طور پر ٹریک پر نہیں آ سکی ہیں۔ لیکن فی الوقت جو ٹرین اب تک ٹریک پر چلنے والی تیز ترین ٹرین کہلاتی ہے وہ بھی جاپانی میگلیو MLX01 ہے، جس کی رفتار 581 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
جاپان اور چین کی ان ٹرینوں کے بارے میں جاپان اور چین ریلویز کے ترجمانوں کے مطابق میگلو سسٹم جدید ترین سسٹم ہے، جسے سمجھنے کے لیے کوئی خاص فارمولا درکار نہیں ہے۔ میگلیو، مقناطیسی لیویٹیشن سے ماخوذہے۔ یعنی ٹرین کی نقل و حمل کا ایک ایسا نظام جو برقی مقناطیس کے دو سیٹ استعمال کرتا ہے۔ ان میں سے ایک سیٹ ٹرین کو پٹری سے پیچھے ہٹانے اور دھکیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور دوسرا سیٹ ٹرین کو آگے لے جانے کے لیے استعمال میں لایا جاتاہے۔ چنانچہ ایسی ٹرینیں پٹری سے تقریباً 10 سینٹی میٹر (3.9 انچ) اوپر اٹھی ہوتی ہیں۔
قبل ازیںاسی تیز رفتار یعنی انٹرسٹی میگلیو سسٹم کے تحت ٹرینیں چار سو کلومیٹر فی گھنٹہ یا 250 میل فی گھنٹہ تک، اور کم رفتار شہری میگلیو سسٹم دو سو سے اسی کلومیٹر فی گھنٹہ یا ایک سو چوبیس سے پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلائی جا چکی ہیں۔ جاپان دو جدید ترین ٹیکنالوجیز سے میگلیو ٹرینیںتیار کرکے چلاتا ہے۔ ایک جاپان ایئر لائنز کی HSST ہے اور دوسری جو زیادہ مشہور ہے،
وسطی جاپان ریلوے کمپنی کی ایس سی میگلیو (SCMaglev) ہے۔ مؤخر الذکر کی ترقی 1969ء میں شروع ہوئی۔ ’میازاکی‘ ٹیسٹ ٹریک پر میگلیو ٹرینیں 1979ء تک باقاعدگی سے 517 کلومیٹر فی گھنٹہ (321 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے چلتی تھیں۔ لیکن پھر ایک تباہ کن حادثے کے بعد، ٹرین کا ایک نیا ڈیزائن منتخب کیا گیا۔1987ء میں جاپان کے شہر اوکازاکی میں’ ایس سی میگلیو کو اوکازا‘ کی نمائش کی گئی اور اس میں سواریاں بٹھا کر چلایا گیا ۔
میازاکی میں ٹیسٹ 1980ء کی دہائی تک جاری رہے۔ 1997 میں’ یاماناشی‘ شہر میں 20 کلومیٹر طویل ٹیسٹ ٹریک پر چلانے سے قبل اس ٹریک کو تقریباً 43 کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا۔ بعد ازاں موجودہ 603 کلومیٹر فی گھنٹہ یعنی375 میل فی گھنٹہ عملے کے ساتھ چلنے والی ٹرینوں کی رفتار کا عالمی ریکارڈ 2015ء میں قائم کیا گیا تھا۔اب آتے ہیں HSST طرف، جس کی ترقی کا آغاز 1974ء میں ہوا۔
1985 میں ’سوکوبا‘ جاپان میں HSST-03 ٹرین اپنی 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز رفتاری کے باوجود ’سوکوبا‘ عالمی نمائش میں مقبول ہوئی۔ 1988ء میں ’سائتاما‘ جاپان میں HSST-1-04کو ’کماگایا‘ میں سائیتاما نمائش میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی تیز ترین ریکارڈ کی گئی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ ایک نئی تیز رفتار میگلیو لائن، شنکانسن جسے انگریزی زبان میں ’’دی بلٹ ٹرین‘‘ کہا جاتا ہے، جاپان میں ایک تیز رفتار ریلوے نیٹ ورک ہے۔
شنکانسن، کی تعمیر 2014ء میں شروع ہوئی تھی۔ اسے یاماناشی میں ایس سی میگلیو ٹیسٹ ٹریک کو دونوں سمتوں میں بڑھا کر بنایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی تعمیر کی اجازت مقامی حکومت کی جانب سے مسترد کر دیے جانے کے بعد 2027ء کے تازہ ترین تخمینے کے ساتھ تکمیل کیا جانا ہے۔ لیکن اس کی تعمیر اور نمائش کی تاریخ فی الحال نہیں بتائی گئی۔
شنکانسن لائن کا افتتاح 1964ء میں کیا گیا تھا اور اسے دنیا کی پہلی جدید تیز رفتار ریل سمجھا جاتا تھا، جس میں 0 سیریز کی شنکانسن ٹرین 210 کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز رفتاری تک پہنچتی تھی۔ آج شنکانسن نیٹ ورک کی آپریٹنگ لمبائی تقریباً 3,000 کلومیٹر ہے، جو جاپان کے بیشتر علاقے پر محیط ہے۔ 2015ء سے 2019ء تک، جاپانی تیز رفتار ٹرینوں کی سواری نسبتاً بہت شاندار رہی۔ لیکن کوویڈ کی وبا کے نتیجے میں 2020 ء میں 370 ملین مسافروں کی تعداد گھٹ کر 156 ملین رہ گئی۔
چین میں تیز رفتار ریل کی تاریخ دنیا بھر کے دیگر ہائی اسپیڈ ٹرینوں کے مقابلے میں نسبتاً اچھی ہے۔ چین میں پہلی تیز رفتار ریل لائن نے 2008ء میں کام شروع کیا، جو بیجنگ اور تیانجن کے شہروں کو ملاتی ہے۔ صنعت میں نووارد سمجھے جانے کے باوجود چین نے پچھلی دو دہائیوں میں تیزی سے ترقی کی ہے اور تیز رفتار ٹرینوں والے ممالک میں برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
2021ء میں دنیا بھر میں تیز رفتار نیٹ ورکس میں سے چین کے پاس 40,474 کلومیٹر کے ساتھ اب تک کا سب سے لمبا نیٹ ورک تھا اور 2019 ء میں چینی ہائی اسپیڈ ٹرینوں میں تقریباً 2.3 بلین مسافروں نے سفر کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔