محمد نعمان اشرف :
مویشی منڈیوں کے خلاف ضابطہ ٹھیکوں سے کے ایم سی کو سالانہ 20 کروڑ روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ڈی ایم سیز نے ملیر، لانڈھی، مواچھ گوٹھ، آسو گوٹھ اور بھینس کالونی میں سلاٹر ہائوسز کے ٹھیکے من پسند افراد میں بانٹ دیئے ہیں۔ جہاں جانور کی صحت اور گوشت کا معیار جانچنے کا کوئی بندوبست نہیں اور کراچی بھر میں مضر صحت گوشت کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے۔ دوسری جانب بھینس کالونی، ملیر میں واقع ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کی کئی ایکڑ اراضی پر غیر متعلقہ افراد قابض ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کے مختلف محکموں میں ڈی ایم سیز کی مداخلت کے باعث کے ایم سی کی آمدنی انتہائی کم ہوتی جارہی ہے۔ محکمہ ویٹرنری ماضی میں سالانہ کروڑوں روپے کی ریکوری کرتا تھا۔ تاہم اب محکمہ ویٹرنری کے معاملات ڈی ایم سی ملیر اور ڈی ایم سی کیماڑی چلانے لگی ہیں۔ جس کے باعث محکمہ ویٹرنری کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ مہران سپر ہائی وے پر محکمہ ویٹرنری کا ڈرائی اینمل سیل پوائنٹ روڈ نمبر 8 اور 9 پر قائم تھا۔ جہاں یومیہ ہزاروں جانور لائے جاتے تھے۔ یہاں چھوٹے بڑے جانور 100 روپے انٹری فیس کے بعد کھڑے کیے جاتے تھے۔ جس کے بعد جانوروں کی خرید و فروخت کا سلسلہ دن بھر جاری رہتا تھا۔ تاہم ڈرائی اینمل سیل پوائنٹ کو ڈی ایم سی ملیر نے اپنی حدود میں شامل کرکے یہاں سے ازخود وصولی شروع کردی ہے اور جانوروں کی انٹری فیس میں بھی اضافہ کر رکھا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ڈرائی اینمل سیل پوائنٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت چلنے سے محکمہ ویٹرنری کو سالانہ ایک کروڑ 92 لاکھ روپے سے زائد کی آمدنی ہوتی تھی۔ تاہم یہ معاملہ ڈی ایم سی ملیر کے پاس جانے سے محکمہ کو ایک کروڑ 92 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح مویشی منڈی کا ٹھیکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی الاٹ کیا کرتی تھی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت ملیر، مواچھ گوٹھ، بلدیہ ٹائون اور آسو گوٹھ کے علاقے میں مویشی منڈیاں (پِیڑیاں) چلا کرتی تھیں۔ یہاں پاکستان بھر سے جانور لائے جاتے ہیں۔ جانور یہاں کچھ روز کھڑے ہونے کے بعد مختلف سلاٹرز ہاؤس میں ذبح ہونے کے لیے بھیج دیئے جاتے۔ ملیر آسو گوٹھ کی مویشی منڈی (پِیڑی) 6 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس پر اب ڈی ایم سی ملیر کا کنٹرول ہے۔
مذکورہ منڈی سے کے ایم سی کو سالانہ 5 کروڑ روپے کی آمدنی ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح ضلع کیماڑی بلدیہ مواچھ گوٹھ کی منڈی 5 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس کا نام اب مواچھ گوٹھ منڈی رکھ دیا گیا ہے۔ مذکورہ پیڑی بھی ڈی ایم سی کیماڑی کے زیر نگرانی چلائی جارہی ہے۔ ڈی ایم سی کیماڑی کے ماتحت پیڑی چلنے سے کے ایم سی کے محکمہ ویٹرنری کو سالانہ 4 کروڑ روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ملیر کی ایک اور منڈی (پیڑی) پر بھی ڈی ایم سی ملیر نے کنٹرول کر رکھا ہے۔ جہاں سے سالانہ 4 کروڑ روپے کی آمدنی اب ڈی ایم سی ملیر وصول کر رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈی ایم سیز کے قیام کے بعد 2002ء میں ہی ڈی ایم سیز نے یہ کنٹرول حاصل کرلیے تھے۔ ڈی ایم سی کیماڑی کے قیام سے قبل ڈی ایم سی غربی یہاں سے وصولیاں کیا کرتی تھی۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ مویشی منڈی جب کے ایم سی کے زیر کنٹرول تھی تو نگرانی کا مکمل بندوبست کیا جاتا تھا۔ میدان میں کھڑے جانور کی مکمل نگرانی کی جاتی تھی کہ وہ بیماری یا کسی وائرس کا شکار تو نہیں؟ ڈاکٹر کے مکمل چیک اپ کے بعد جانور کو سلاٹر ہاؤس لے جایا جاتا تھا۔ اس کے بعد اس کا گوشت شہر میں فروخت کے لیے آتا۔ تاہم اب پیڑیوں میں کھڑے جانور کی نگرانی کا کوئی بندوبست نہیں۔ ڈی ایم سی کی جانب سے کوئی ٹیم تشکیل نہیں دی گئی۔ جو جانوروں کا چیک اپ کرے۔
ذرائع نے بتایا کہ ڈی ایم سیز کے پاس ویٹرنری کا نظام جانے سے ایسے افراد کو ٹھیکے الاٹ کیے گئے ہیں۔ جن کو محکمے کا علم ہی نہیں ہے۔ بلدیہ ٹائون کی مواچھ گوٹھ پیڑی، آسو گوٹھ اور ملیر کی پیڑی کے ٹھیکے ایسے افسران کو دے دیئے گئے ہیں۔ جو صرف رقم وصول کرنے میں مصروف ہیں۔ نگرانی نہ ہونے سے شہر میں اب تمام ڈی ایم سیز نے اپنی حدود میں چھوٹے بڑے سلاٹر ہاؤس بھی کھلوا دیے ہیں۔ جہاں جانوروں کا پریشر والا گوشت فروخت کیا جارہا ہے۔ کے ایم سی کے محکمہ ویٹرنری نے گزشتہ دنوں اس حوالے سے کارروائیاں بھی کی تھیں۔ سولجر بازار اور دیگر مقامات پر کارروائیاں کرکے 500 کلو گوشت ضبط کیا گیا تھا جو کٹّے کا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ نگرانی کا نظام بہتر نہ ہونے سے اب لیاری، صدر، کیماڑی، گارڈن اور دیگر علاقوں میں گھروں میں بھی سلاٹر ہائوس کھل گئے ہیں۔ جس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ محکمہ ویٹرنری کے سنیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایا کہ گلی محلوں میں کھلنے والے سلاٹر ہائوس کے خلاف متعدد بار کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم کے ایم سی کی ٹیم روانہ ہونے سے قبل ہی متعلقہ ڈی ایم سی کے افسران غیر قانونی سلاٹر ہائوس کو اطلاع دے دیتے ہیں۔ یوں بعض مقامات پر شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
کے ایم سی نے گزشتہ دنوں جو سلاٹر ہائوس چلانے کے این او سی جاری کیے تھے۔ اس پر بھی کہیں عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کے ایم سی کے چلائے گئے چھوٹے سلاٹر ہائوسز پر بھی ڈی ایم سیز قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھینس کالونی، ملیر کے سلاٹر ہاؤس پر بھی با اثر افراد قابض ہوچکے ہیں۔ ویٹرنری کو الاٹ کی گئی اراضی پر قبضہ کرکے یہاں باڑے بنا دیے گئے ہیں۔ جو پرائیویٹ افراد کے ہیں۔
مذکورہ باڑے ڈی ایم سی کے افسران نے ہی پرائیویٹ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے ٹھیکے پر دیئے تھے۔ جس پر وہ پوری طرح قبضہ کرچکے ہیں۔ ان قبضوں میں ڈی ایم سی، ویٹرنری اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران بھی شامل ہیں۔ ان قبضوں کے حوالے سے محکمہ ویٹرنری نے اینٹی انکروچمنٹ سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو متعدد درخواستیں لکھی ہیں۔ لیکن کبھی شنوائی نہیں ہوئی۔
’’امت‘‘ کو اینٹی انکروچمنٹ کو لکھا گیا لیٹر موصول ہوا۔ لیٹر نمبر Sr.Dir(VS)/KMC/2019/46/ میں کہا گیا ہے کہ ’ضلع ملیر میں غیر قانونی پیڑی، منڈی اور گوشت کی دکانوں کھلی ہوئی ہیں۔ ان افراد کے پاس نہ تو کے ایم سی کا اجازت نامہ ہے اور نہ ہی یہ ایس او پی پر مکمل عمل کیا جا رہا ہے۔ غیر قانونی مذبح سے گوشت کی فروخت بھی دھڑلے سے جاری ہے۔ جس کے باعث ان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں عملہ اور مشینری فراہم کی جائے‘۔ مذکورہ لیٹر پر کہیں عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔
’’امت‘‘ کو ایک اور لیٹر موصول ہوا۔ لیٹر نمبر SDIR/VS/KMC/44/12 میں ایڈمنسٹریٹر کراچی کو کہا گیا کہ لانڈھی پیڑی کی اراضی پر قبضہ ہوگیا ہے جو کے ایم سی ویٹرنری کے حوالے واپس کیا جائے۔ لیٹر میں لکھا گیا کہ ’سیکشن 180 اور سیکشن 27،40 سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کے تحت مویشیوں کی پیڑی اور سلاٹر ہاؤس کے ایم سی کا حصہ ہیں۔ کے ایم سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر میں معیاری اور سستے گوشت کی فروخت عام کرے‘۔ مذکورہ لیٹر میں کے ایم سی کی زمین پر قبضے کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ ایک اور لیٹر نمبر 183 میں لانڈھی، ملیر اور مواچھ گوٹھ پیڑی پر قبضے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مذکورہ لیٹر 2013 میں ایڈمنسٹریٹر کراچی کو لکھا گیا۔
محکمہ ویٹرنری میں آمدنی کم ہونے سے محکمہ تباہی کے دہانے پہنچ رہا ہے۔ محکمہ ویٹرنری میں کئی برسوں سے نئی گاڑیاں نہیں خریدی گئیں۔ جو گاڑیاں افسران کے زیر استعمال ہیں۔ ان پر وہ سروے کیلئے روانہ ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ گاڑیاں زنگ آلود ہوچکی ہیں۔ ہائی روف اور دیگر ٹرانسپورٹ بھی محکمہ ویٹرنری میں موجود نہیں۔ ناقص گوشت کی روک تھام کیلئے عملہ اور دیگر افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم محکمہ ویٹرنری میں اب بڑی تعداد میں اسٹاف موجود نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ ویٹرنری میں جو اسٹاف موجود ہے۔ ان کے کئی بار بقایا جات رک جاتے ہیں۔ کیونکہ افسران ملازمین کو کہتے ہیں کہ تنخواہیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ریکوری نہ ہونے سے ملازمین کی تنخواہیں نکالنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کے ایم سی ورکشاپ میں کھڑی برسوں سے ناکارہ جیپ، شہزور اور دیگر گاڑیاں بھی توجہ مانگ رہی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ گاڑیوں کی مرمت کیلئے کئی بار بجٹ جاری کیا گیا۔ لیکن وہ افسران کی جیب میں چلا گیا۔ جس کے باعث محکمہ مزید تباہی کی طرف جا پہنچا ہے۔ محکمہ ویٹرنری کے سنیئر افسران کا کہنا ہے کہ جن مقامات پر ڈی ایم سی قابض ہو چکی ہے۔ اگر یہ ٹھیکے کے ایم سی کی جانب سے جاری کیے جائیں تو محکمہ ویٹرنری کو سالانہ 20 کروڑ روپے کی آمدنی ہوگی۔ جس سے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ سابقہ ڈائریکٹر ویٹرنری اقبال نواز کو محکمے کی بہتری کے حوالے سے کئی بار اہم چیزیں فراہم کی گئیں۔ لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔
اقبال نواز کو بتایا گیا کہ شہر میں چلنے والے غیر قانونی سلاٹر ہائوس زکے خلاف اگر کارروائیاں کی گئیں تو اس سے کے ایم سی محکمہ ویٹرنری کے ریونیو میں بہتری آسکتی ہے۔ اگر غیر قانونی سلاٹر ہائوس کو ٹھیکے بھی جاری کیے جائیں تو بہتری آجائے گی۔ لیکن اقبال نواز نے کبھی مذکورہ معاملے پر توجہ نہیں دی۔ ذرائع کے مطابق غیر قانونی سلاٹر ہائوسز سے اقبال نواز نے لاکھوں روپے بٹورے ہیں۔ ان کی تعیناتی کے بعد محکمہ مزید تباہی کی طرف پہنچ گیا تھا۔ جس کے باعث انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔
نئے آنے والے ڈائریکٹر ویٹرنری کو مذکورہ مقاملات کے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ جس پر انہوں نے ڈپٹی ڈائریکٹرز اور انچارج کو ہدایت جاری کردی ہیں کہ محکمے کی بہتری کیلئے جو بھی چیزیں درکار ہیں۔ وہ فوری بتائیں۔ تاکہ محکمہ ویٹرنری کے ریونیو میں بہتری آسکے۔ اس حوالے سے محکمہ ویٹرنری میں اہم اجلاس بھی چل رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے موقف کیلئے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ترجمان علی حسن ساجد سے رابطہ کیا۔ لیکن انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔