نواز طاہر :
آٹا مافیا نہ صرف پنجاب حکومت کو بلیک میل کرنے میں ناکام ہوگئی۔ بلکہ مافیا کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی۔ چینی اسکینڈل کی طرز پر گندم و آٹا اسکینڈل کی تحقیقات کا بھی امکان پیدا ہوگیا ہے۔ جبکہ تحقیقات روکنے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے پنجاب میں ہڑتال کی دھمکی دی گئی تھی۔ جسے حکومت نے مسترد کر دیا تھا اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عندیہ دیا تھا۔ جبکہ فلور ملز مالکان کی جانب سے ہڑتال کی دھمکی اس وقت دی گئی۔ جب پنجاب کے محکمہ خوراک نے مختلف علاقوں میں آٹے کی سپلائی میں کمی کا نوٹس لے کر جائزہ لیا اور اس کے علم میں آیا کہ پنجاب میں یومیہ آٹھ سے دس ہزار ٹن گندم خوربرد کی جارہی ہے اور یہ گندم ملوں کے بجائے کھلی مارکیٹ میں دو گنا نرخ پر فروخت کی جارہی ہے۔
اس جائزے کے بعد محکمہ خوراک نے آٹا مافیا کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے اور سرکردہ رہنمائوں کی فلور ملوں پر چھاپے مارکر انہیں بند کرنا شروع کر دیا۔ ان میں سے زیادہ تر فلور ملز ایسی تھیں۔ جہاں محکمہ خوراک سمیت تمام متعلقہ اداروں کا غیر اعلانیہ داخلہ ممنوع تھا۔ ماضی میں انہی کی دبائو پر فلور ملز کیلئے گندم کا سرکاری کوٹہ اٹھارہ ہزار ٹن سے بتدریج بڑھاکر چھبیس ہزار ٹن کیا گیا تھا۔ جس کی یومیہ تیس کروڑ روپے سے زائد سبسڈی بھی دی جارہی تھی۔ لیکن حکومت سے طے شدہ طریقہ کار ٰاس او پیز) کے تحت کوٹے کی گندم سے پچھتر فیصد آٹا سرکاری نرخ پر مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے بجائے یومیہ دس لاکھ ٹن تئیس سو روپے فی من سے لینے کے بعد دوسرے صوبوں اور اسمگلرز کو چھیالیس سو روپے فی من فروخت کی جارہی تھی۔
حکومت نے اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے پچیس من سے زائد آٹا دوسرے ضلع میں منتقل کرنے پر پابندی لگائی تو آٹا مافیا نے بحران پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اس منصوبہ بندی کے تحت محکمہ خوراک کے سیکریٹری کو بھی حکومت پر دبائو ڈال کر تبدیل کرالیا گیا۔ تاہم نگران حکومت قائم ہونے کے بعد نئے تعینات ہونے والے سیکریٹری خوراک نے فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق صدر عاصم رضا کی فلور ملز کا معائنہ کرکے ریکارڈ کی پڑتال کی تو گندم کے حاصل ہونے والے کوٹے اور مارکیٹ میں سپلائی کئے جانے والے آٹے کی مقدار میں فرق پایا گیا اور اس کی وضاحت کرنے کے بجائے سخت رویہ اختیار کیا گیا۔
محکمہ خوراک کے ذرائع کے مطابق اس سخت رویے اور دھمکیوں کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ تاہم حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ آٹا مافیا کس طرح کا مصنوعی بحران پیدا کر رہی ہے اور سبسڈی لینے کے ساتھ ساتھ یومیہ کروڑوں روپے کی ناجائز منافع خوری بھی کر رہی ہے۔ نگران حکومت کی طرف سے قواعد و ضوابط کی کارروائی کرنے کا گرین سگنل ملنے پر محکمہ خوراک نے فلور ملوں کی بندش کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں فراہم کی جانے والی گندم کے مارکیٹ ریٹ لاگو کرنے کا عندیہ دیا گیا تو فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر افتخار مٹہ نے دھمکی دی کہ پیر اور منگل سے پنجاب کی نو سو فلور ملیں آٹے کی سپلائی بند کر دیں گی۔
صوبائی حکومت نے بلیک میلنگ کا شکار ہوئے بغیر متبادل انتظامات کرلئے۔ محکمہ زراعت کے مطابق صوبے میں فعال بارہ ہزار چکیوں کو فوری طور پر سرکاری گندم کی فراہمی شروع کردی گئی ہے اور انہیں سرکاری اوقات میں بھی رعایت دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ زراعت کے حکام نے فلور ملز مالکان سے اجتماعی اور انفرادی رابطے بھی کئے۔ ان رابطوں کے نتیجے میں فلور ملز مالکان میں تقسیم پیدا ہوگئی اور ایک واضح تعداد نے فلور ملز ایسوسی ایشن کی ہڑتال کا ساتھ نہ دینے کی یقین دہانی کرادی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جن فلور ملز مالکان نے حکومت کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ان میں سے کچھ ناجائز منافع خوری میں شامل ہیں یا پھر ان کے ریکارڈ کی پڑتال باقی ہے اور وہ ریکارڈ کی پڑتال سے خائف ہیں۔ جبکہ وہ تمام ایس او پیز کے مطابق کام نہیں کر رہے۔ اس صورت میں انہیں نہ صرف ملوں کی بندش، سبسڈی کی رقم کی واپسی، بلکہ جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی نکتے پر ملز مالکان کی تنظیم کے کچھ رہنمائوں نے ملز مالکان کو متحد اور اسی نے تقسیم کیا۔
ذرائع کے مطابق فلور ملز ایسوسی ایشن نے تاحال ہڑتال کی کال یہ سطور لکھے جانے تک واپس نہیں لی تھی اور اپنے مسائل کا حل ہڑتال ہی قرار دیا۔ لیکن پس منظر میں حکومتی حلقوں سے معاملات حل کرنے کیلئے مختلف ذرائع استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ وہ نہ صرف ہڑتال نہیں کریں گے۔ بلکہ مارکیٹ میں سپلائی برقرار رکھیں گے۔ لیکن اس کے عوض حکومت ان کے ریکارڈ کی پڑتال اور دیگر کارروائی نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ تاہم فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر افتخار مٹہ ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کرتے۔ بیشتر ملز مالکان نے اپنے ٹیلی فون سائلنٹ کر دیئے ہیں۔
دوسری جانب سیکریٹری خوراک محمد زمان وٹو نے نگران حکومت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ جو ہڑتال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ہڑتال کرلیں تو بھی مارکیٹ میں آٹے کی سپلائی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جتنی مقدار میں فلور ملیں گندم کی پسائی کے بعد آٹا فراہم کر رہی ہیں۔ اتنی ہی مقدار میں آٹا چکیوں سے اور ہڑتال میں حصہ نہ لینے والی ملوں سے آسانی کے ساتھ شہریوں کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے کسی سے بھی بلیک میل ہونے کے بجائے تمام فلور ملوں کے ریکارڈ کی تحقیقات کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور اس فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ دریں اثنا محکمہ خوراک کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامی افسروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی متحرک کردیا گیا ہے۔