پاکستان میں بچوں کے دماغی و اعصابی امراض کےصرف 30 ماہرین دستیاب

کراچی(امت نیوز )طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں مرگی میں مبتلا بچوں کے علاج کے لیے دماغی واعصابی امراض کے ماہرین کی کمی ہے، مرگی کے علاج کے لیے اساتذہ اور والدین کو تربیت دینے کی ضرورت ہے، اسکول اساتذہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

 نیورولوجی ایویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مرگی کے عالمی دن کے حوالے سے آرٹ کمپی ٹیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں 50 اسکولز کے بچوں ، والدین اور اساتذہ کی شرکت نے شرکت کی، تقریب سے قائم مقام ڈائریکٹر انسپیکشن اینڈرجسٹریشن پرائیویٹ اسکولز محمد افضال،  نیورولوجی ایویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر محمد واسع،  نیورولوجی ایویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن سیکریٹری پروفیسر عبدالمالک، بچوں کے معروف ادیب اور استاد پروفیسر سلیم مغل سمیت دیگر نے خطاب کیا۔

 عثمان پبلک اسکول 4 کی طالبہ عائشہ صدیقہ نے پہلی، انسپائریکشن اسکول کلاس 8 کی کلثوم نے دوسری، انسپائریشن اسکول کی زینب مستقیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ عثمان اسکول کلاس ون کے طالب علم زید بن جنید کو خصوصی انعام دیا گیا۔

 تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائم مقام ڈائریکٹر انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن پرائیویٹ اسکولز محمد افضال نے کہا کہ مرگی ایک قابل علاج دماغی بیماری ہے لیکن کم علمی اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اسے جن بھوت یا آسیب کا سایہ سمجھ لیتے ہیں، آستانوں اور بابوں کی طرف چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ توہمات کی وجہ مرگی کے دوروں کا علاج چپل سونگھا کر کیا جاتا ہے یا دوسرے جاہلانہ طورطریقے اپنائے جاتے ہیں، اس لیے اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہوتو اسے ماتند دماغی و اعصابی امراض کےماہرین کے پاس جاناچاہیے۔ اس تقریب کا انعقاد بچوں، اساتذہ اور والدین میں آگہی پھیلانے کے مترادف ہے، اسکول اساتذہ اور والدین اس بیماری سے بچاؤ اور تشخیص کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔

نیورولوجی ایویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر  محمد واسع نے کہا کہ پورے ملک میں بچوں کے دماغی واعصابیبیماریوں کےماہرین  کی تعداد 30 جن میں سے کراچی میں 8 ہیں۔

ااس وقت والدین و اساتذہ میں آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے، بچوں میں مرگی کی علامات آغاز سے شروع ہوجاتی ہیں، بچوں میں مرگی 95 فیصد قابل علاج مرض ہے، ان کا کہنا تھا کہ مرض کی جلد تشخیص سے مریض کا دماغ بچایا جاسکتا ہے۔بچوں کے ادیب پروفیسر سلیم مغل کا کہنا تھا کہ بچے جب بھی اچھا کام کریں تو اساتذہ اور والدین کو چاہیے ان کی حوصلہ افزائی کریں انہیں شاباش دیں،اس لیے جن بچوں نے اس مقابلے میں پوزیشن لی اور جو بچے اس مقابلے میں شریک ہوئے اور جیت نہیں سکے انہیں بھی شرکت کرنے پر مبارکباد دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بچوں کی کامیابی ڈگری میں نہیں تعلیم تربیت اور صلاحیت میں تلاش کریں، بچوں کو کہانی سنائیں دکھائیں نہیں کیونکہ جب بچہ سنتا ہے تو تخلیاتی دنیا میں جاتا ہے سوچنا شروع کرتا ہے کرداروں کو آئیڈیل بناتا ہے۔ نیورولوجی ایویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے سیکریٹری پروفیسر عبدالمالک نے کہا کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ افرادمرگی کےمرض میں مبتلا ہیں اور اکثریت اسے جن بھوت، جادو ٹونا یا آسیب سمجھتی ہے جس کی وجہ سے ان کا درست علاج نہیں ہوپاتا۔انہوں نے کہا کہ بچوں میں مرگی کی بیماری سے متعلق مقابلے کا مقصدبھی آگہی پھیلانا ہے کیونکہ بچوں کی بڑی تعداد بھی اس مرض کا شکار ہے اور بچوں میں مرگی کی بیماری کے ماہرین کی تعداد انتہائی کم ہے۔مرگی کا شکار مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، لڑکیوں کی شادیوں نہیں ہوپاتی، اگر شادی ہوجائے تو نوبت طلاق تک آجاتی ہے، بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا اور نوجوانوں کو نوکری نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیگر بیماریوں کی طرح بیماری ہے جسے دواؤں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔