اقبال اعوان :
کراچی کے شہریوں میں گنج پن اورکم عمری میں بالوں میں سفیدی آنے سمیت بالوں کے دیگر امراض میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے وِگ کا بزنس بڑھنے لگا ہے۔ بیشتر خواتین اور لڑکیاں وِگیں اور مصنوعی جوڑے استعمال کرنے لگی ہیں۔ شہر میں چائنا کی وِگیں زیادہ فروخت ہورہی ہیں۔
کالے رنگ کے علاوہ مختلف رنگوں کی وگیں زیادہ خریدی جارہی ہیں۔ شہر کے کباڑیوں نے کھپت بڑھنے پر شہریوں کی جانب سے فروخت کرنے یا پھینکے جانے والے بالوں کو 3 ہزار روپے کلو میں خریدنا شروع کر دیا ہے جن کو مختلف مراحل سے گزار کر ان اصل بالوں کی وگیں تیار کی جاتی ہیں۔ شہری ناقص اور غیر معیاری خوراکوں، جعلی صابن، شیمپو، بالوں کی کریموں، مہنگائی کے باعث فروٹ اور طاقت کی اشیا کی کمی، بورنگ کے پانی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے زیادہ بالوں کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی میں خواتین گھروں پر جڑی بوٹیوں اور مختلف اقسام کے تیل کے ٹوٹکے تیار کرتی تھیں۔ جبکہ اس وقت شہر میں بال لگانے اور وگیں فروخت کرنے والی دکانوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی میں جہاں شہریوں میں ہڈیوں جوڑوں کے درد کے علاوہ دیگر بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں، وہیں بالوں کے امراض سے بھی شہری پریشان ہیں۔
بیوٹی پارلرز میں باقاعدہ بالوں کو بڑا دکھانے کے لیے جوڑے اور وگ کا استعمال تیاری کے دوران کیا جاتا ہے۔ خواتین اور نوجوان لڑکیاں تو کیا بچیاں تک پریشان نظر آتی ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز پر شیمپوز، کریموں کے اشتہار بڑھ چکے ہیں۔ شہری معاشی پریشانیوں کے بعد دیگر مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔
مختلف بیماریوں کی دوائیوں کا استعمال بڑھ چکا ہے۔ زیادہ پاور والی گولیوں کے سائیڈ افیکٹ بھی زیادہ ہوتے ہیں، جو جسم کے دیگر اعضا سمیت بالوں پر بھی اثر کرتے ہیں۔ شہر میں میٹھے پانی کا بحران شدید ہے اور بورنگ کے پانی نے بالوں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور زیادہ تر کم عمر لڑکوں میں بالوں کی سفیدی آرہی ہے۔ لوگ گنج پن کا شکار ہورہے ہیں۔ شہر میں طرح طرح کی بالوں کو کالا کرنے یا دیگر رنگ کا کرنے کے لیے کریمیں اور پیسٹ آرہے ہیں۔ ناقص، غیر معیاری، سستے اور میعاد ختم ہونے والے شیمپوز کی بھرمار ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے انڈے، دودھ، فروٹ کا استعمال کم ہو چکا ہے۔
شہریوں میں پوش طبقے والے تو جگہ جگہ کھلنے والے بالوں کے کلینک پر مہنگے داموں بال لگواتے ہیں۔ اس طریقے میں ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ جبکہ درمیانی طبقہ بالوں کو چائنا کے کلرز سے رنگوا لیتا ہے یا بازار سے وگ لے کر استعمال کرتا ہے۔ غریب طبقہ تو بال رنگوانے کے بجائے مہندی یا کالا پتھر پیس کر اس کا پیسٹ بنا کر بال کالے کر لیتا ہے، یا لال کر لیتا ہے۔
خواتین اور بچیاں سفیدی آنے پر جہاں مہنگے کلرز، کریموں کا استعمال کرتی ہیں اور طرح طرح کے شیمپو، صابن کا استعمال کرتی ہیں۔ وہیں شادی بیاہ یا دیگر تقریبات پر بیوٹی پارلر والے تیاری کے دوران کالے بالوں کی بڑی وگ یا بڑا جوڑا لگا کر ان کے بال سیٹ کر دیتے ہیں۔ اس طرح وگوں کی فروخت بیوٹی پارلر والے زیادہ کرتے ہیں۔ جبکہ بیوٹی پارلر والے عارضی بال کالے یا رنگدار کرنے والے کیمیکل والے محلول استعمال کرتے ہیں۔
پنساریوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس دیسی جڑی بیوٹی سے تیار مختلف تیل ہوتے ہیں۔ شیمپو بھی فروخت کرتے ہیں، تاہم یہاں غریب طبقہ ہی آتا ہے۔ باقی لوگ جدید دور میں ٹی وی چینلز پر اشتہار دیکھ کر مختلف اقسام کے شیمپو، کریمیں، صابن استعمال کرتے ہیں۔ کراچی میں شہری گھروں سے خواتین، بچیوں کے کنگھی کے دوران ٹوٹنے والے بال، بچیوں کے کاٹے جانے والے بال جمع کرکے ادھر ادھر کچرا کنڈیوں میں پھینک دیتے ہیں۔
کچرا جمع کرنے والے یہ بال اکٹھے کرتے ہیں اور کباڑی ان سے 3 ہزار روپے فی کلو میں خریدتا ہے۔ اس طرح شہر میں جمع شدہ بال مختلف علاقوں میں دوبارہ وگیں تیار کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ ان بالوں کو واش، کٹنگ، سیٹنگ کر کے وگیں تیار کی جاتی ہیں۔ صدر سمیت شہر کے بڑے بازاروں میں وگیں فروخت کرنے والوں کی دکانوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔
بوہری بازار صدر میں وِگ فروخت کرنے والے عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ، وگوں کا کاروبار خاصا بڑھا ہے۔ چائنا کی کالی وگیں اور رنگدار وگیں زیادہ آرہی ہیں جو 5 سے 6 ہزار روپے میں مل جاتی ہیں۔ جبکہ دیگر ملکوں کے علاوہ لوکل تیار کردہ اصل بالوں والی زنانہ وگیں 10 سے 25 ہزار روپے تک ملتی ہیں۔
مردانہ وگیں 7 سے11 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ دوسری جانب جلد اور بالوں کے امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بالوں کی بیماریاں شہر میں 40 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ اہم وجوہات میں غیر معیاری خوراکیں، دوائیوں کا بڑھتا استعمال، جعلی شیمپو، صابن اور بورنگ کے پانی کا استعمال شامل ہے۔