تعیناتی سے تفتیشی افسران کے مزے- آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات نظراندا زکردی گئیں،فائل فوٹو
تعیناتی سے تفتیشی افسران کے مزے- آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات نظراندا زکردی گئیں،فائل فوٹو

ایف آئی اے افسران ڈیجیٹل بھتہ خور بن گئے

عمران خان :
ایف آئی اے افسران ڈیجیٹل بھتہ خور بن گئے۔ راشی افسران کی جانب سے ورچوئل کرنسی میں رشوت وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ شہریوں کے کرپٹو کرنسی سے بھرے ڈیجیٹل والٹ (کھاتے) خالی کر دیئے گئے۔ جبکہ ان میں موجود کرپٹوں کرنسیاں ان کے بلیک چین سے دیگر اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئیں۔ قابل تشویش امر یہ ہے کہ ملوث افسران بچ گئے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر اور کمپیوٹر سائنس سے نابلد غیر تجربہ کار پی ایس پی افسران کو انچارج بنا کر تعینات کرنے سے تفتیشی افسران بھر پور فائدہ اٹھانے لگے۔ ملوث افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور آمدنی سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کے ساتھ سخت محکمہ جاتی کارروائی کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔

’’امت‘‘ کو موصولا دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر عصمت اللہ جونیجو کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کی ہدایات پر ایک تفصیلی انکوائری مکمل کرکے اس کی رپورٹ متعلقہ حکام کو بھیجی گئی۔ دستاویزات کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر عصمت اللہ جونیجو کی جانب سے مراسلہ ہیڈ کوارٹر بھیجا گیا۔

انکوائری رپورٹ میں حوالہ دیا گیا کہ انہیں ایف آئی اے ہیڈ کواٹر سے مراسلہ پر انکوائری مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جس میں الزامات تھے کہ 5 دسمبر 2018ء کو سائبر کرائم لاہور میں تعینات سب انسپکٹر خالد سعید نے اپنی ٹیم کے ہمراہ چھاپہ مارکر اوکاڑہ میں میں قائم ایک دفتر سے 2 افراد غلام احمد اور عثمان علی کو گرفتار کیا۔ ملزمان غیر قانونی طور پر کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرنے کے الزام میں مقدمہ نمبر 211/2018 درج کیا گیا اور مزید تحقیقات شروع کی گئیں۔

مقدمہ میں نامزد گرفتار افراد اپنے جسمانی ریمانڈ اور جیل کی قید سے ضمانت ملنے پر باہر آئے جس کے بعد انہوں نے ایف آئی اے کے افسران پر سنگین الزامات عائد کردیئے۔ اس کیس میں ایف آئی اے افسر خالد سعید کی جانب سے مبینہ ملزمان سے ملنے والی ڈیجیٹل کرنسی کے اکاؤنٹس اور بلاک چین وغیرہ کا ریکارڈ اور ان کو چلانے کے لئے استعمال ہونے والی ای میل ایڈریس کے ساتھ موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی فارنسک چھان بین کے لئے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سینئر انویسٹی گیٹر رضوان ارشد کو ٹیم میں شامل رکھا گیا۔

دستاویزات کے ان افراد کی جانب سے ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کو شکایت موصول ہوئی کہ ایف آئی اے کے افسر خالد سعید اور دیگر نے ان سے بھاری رقم وصول کی ہے۔ اس پر وزارت داخلہ نے ڈپارٹمنٹل انکوائری کا حکم دیا۔ جس پر عصمت اللہ جونیجو نے طویل انکوائری کرنے کے بعد اپنی رپورٹ حکام کو ارسال کی جس میں الزام عائد کرنے والے شہریوں، ایف آئی اے افسران اور اہلکاروں کے تفصیلی بیانات کے ساتھ ہی سامنے آنے والے ثبوت اور شواہد کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا۔

دستاویزات کے مطابق انکوائری میں غلام احمد نے بیان دیا کہ جب انہیں حراست میں لے کر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے دفتر میں منتقل کیا گیا تو ان پر بدترین تشدد کیا گیا اور ان سے 50 لاکھ روپے بطور رشوت دینے کا دباؤ ڈالا گیا۔ اسی دوران ان کے اہل خانہ اور دوستوں سے بھی رابطہ کروایا گیا جس کے بعد ان کے عزیز کی جانب سے بات چیت کے بعد 15لاکھ روپے دینے کی حامی بھرلی گئی، کیونکہ ان کے پاس اتنی ہی رقم بطور قرض لے کر جمع ہوسکتی تھی۔ تاہم یہ رقوم دینے کے بعد جب وہ ضمانت لے کر باہر آئے اور انہوں نے اپنے کرپٹو کرنسی کے اکاؤنٹ چیک کئے تو ان میں موجود 30 ہزار ڈالرز جو کہ لاکھوں روپے بنتے ہیں غائب تھے اور ان کو کسی نے دوسرے کھاتوں میں منتقل کردیا تھا۔

انکوائری میں مزید لکھا گیا کہ اس معاملے میں سب انسپکٹر خالد سعید اور سینئر انویسٹی گیٹر رضوان ارشد اور اہلکار سلمان عبداللہ کے بیانات بھی ریکارڈ کئے گئے اور سامنے آنے والے شواہد سے معلوم ہوا کہ ایف آئی اے کے افسران نے بددیانتی کی وجہ سے اس کیس میں بنائے گئے چالان اور رپورٹوں میں غلام احمد کے www.Bitcoinminor.com، www.Bitmex.com ،www.Cryptopia.co.nz ،www.Poloniex.com کے نام سے کام کرنے والی کرپٹو ایکسچینج اور بلاک چین اکاؤنٹس چلانے والی کمپنیوں کے کھاتوں میں موجود ورچوئل کرنسی کی مالیت درج نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی ان ڈیجیٹل والٹس یعنی کھاتوں کو چلانے کے لئے استعمال ہونے والے غلام احمد کے ای میل اکاؤنٹس کا تذکرہ کیا گیا، جن میں [email protected] [email protected] اور [email protected] کے نام سے ای میل اکاؤنٹس شامل تھے۔

انکوائری رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ ان اہم معلومات کا تذکرہ نہ کرکے ان افسران نے خود کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ مبینہ ملزم کے اکاؤنٹس خالی کرسکیں۔ بعد ازاں انکوائری میں مذکورہ بلاک چین جن کمپنیوں کے کھاتوں میں چلائے جا رہے تھے ان سے بھی ریکارڈ طلب کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ غلام احمد جیل جس عرصے میں اور حراست میں تھا اس دوران بلاک چین سے کرپٹو کرنسی ٹرانسفر کرکے کن دوسرے کھاتوں میں منتقل کی گئی۔ تاہم کمپنیوں کی جانب سے اس پر کسی قسم کا کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں خالد سعید کو رقم بٹورنے اور رضوان ارشد کو اس لین دین میں بروکر کا کردار ادا کرنے میں ملوث قرار دے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی۔ تاہم اب تک ان سفارشات پر عمل در آمد نہیں کیا جاسکا۔

’’امت‘‘ کو ایف آئی اے کے ایک افسر نے بتایا ہے کہ جس وقت یہ معاملات ہو رہے تھے اس وقت کسی کو ان کی سمجھ نہیں آسکی کیونکہ اس وقت پیکا رولز کی خلاف ورزی کرکے پولیس سے آنے والے کئی ایسے افسران انچارج لگائے جاتے تھے، جنہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی یا پھر ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے کوئی علم ہی نہیں اور انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ اگر منی لانڈرنگ کرنے کے لئے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو ایسی صورت میں اثاثوں کی ضبطگی موثر انداز میں کیسے ہوسکتی ہے۔

بعض اوقات اسی چیز کا ماتحت افسران بھرپور فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سینئر انویسٹی گیٹر رضوان ارشد اب ملک سے مستقل طور پر باہر جا چکے ہیں، جبکہ خالد سعید کی ایک درجہ ترقی بھی ہوچکی ہے۔