محمد علی :
بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے انڈین فوج میں عسکری صلاحیت اور افرادی قوت بڑھانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ تازہ اقدام میں چین کی سرحد پر بارڈر گارڈز کی تعداد میں نمایاں اضافے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے اعصاب پر چین کا خوف سوار ہے اور اب تک اسے ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑی ہے۔ چین کی فوج نے ہمیشہ بھارتی فوجیوں کو اندر گھس کر مارا ہے۔ 9 دسمبر 2022ء کو بھی چائنیز لبریشن آرمی کے دستے ارونا چل پردیش کے توانگ سیکٹر میں داخل ہوگئے تھے اور بھارتی فورسز کی خوب ’’پٹائی‘‘ کی تھی۔ جبکہ اس سے قبل 2020ء میں لداخ کی وادیٔ گلوان میں خونریز جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
چین کی بڑھتی ہوئی طاقت پر بھارت میں تھرتھری مچی ہوئی ہے۔ مودی سرکار چین کے خوف سے بھارتی فوج میں مسلسل اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔ جبکہ آسمان کو چھوتے عسکری اخراجات کی مد میں اس کا بوجھ براہ راست بھارتی جنتا پر پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں مودی سرکار عسکری بجٹ میں بھی 13 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ اب نریندر مودی نے انڈو تبت بارڈر پولیس (ITBP) میں توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اس میں 7 نئی بٹالینز، 47 نئی چیک پوسٹیں اور ایک سیکٹر ہیڈکوارٹر کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں اس وسیع و عریض سرحد پر دو سے تین برس میں مزید 9 ہزار 400 نئے بارڈر گارڈز یا سرحدی محافظین کو تعینات کیا جائے گا۔
کابینہ کمیٹی برائے سلامتی امور نے بدھ کو نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اس کی منظوری دی۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی مسلح دستوں کی نفری میں 10 فیصد کا اضافہ ہو جائے گا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ 2020ء سے چین کے ساتھ جاری سرحدی کشیدگی اور تعطل کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر اطلاعات انوراگ ٹھاکر کے مطابق 2025-26ء میں ساتوں بٹالینز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹر کی تیاری مکمل ہو جائے گی۔
وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق ان بٹالینز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹر کے لیے 9 ہزار 400 نئی اسامیاں نکالی جائیں گی۔ اس وقت انڈو تبت بارڈر پولیس کی کُل نفری 88 ہزار 430 ہے۔ اس کے بعد ان کی تعداد 97 ہزار 830 ہو جائے گی۔ مالی طور پر دیکھا جائے تو اس منصوبے پر لگ بھگ 28 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے۔
انوراگ ٹھاکر نے بتایا کہ زمین کے حصول سمیت دفاتر اور عمارتوں کی تعمیر اور اسلحہ و گولہ بارود کی خریداری پر 18 ارب سے زائد رقم خرچ ہوگی۔ جبکہ نئی افرادی قوت کیلئے تنخواہیں اور راشن کی مد میں سالانہ 9 ارب 63 کروڑ روپے درکار ہوں گے۔ یعنی بھارتی جنتا کی جیبوں سے یہ 10 ارب روپے ہر سال نکالے جائیں گے۔ واضح رہے کہ آئی ٹی بی پی کا قیام 1962ء میں بھارت چین جنگ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس کا کام 3 ہزار 488 کلومیٹر بھارت چین سرحد کی نگرانی کرنا ہے۔
اس کے باوجود چینی افواج لداخ خطے میں دیپسانگ اور چارڈنگ نالہ علاقے میں کئی روایتی پوائنٹس پر بھارتی افواج کو نگرانی سے روکتی رہی ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں بین الاقوامی امور کے ماہر اسد مرزا نے بتایا کہ ایک ماہ قبل نئی دہلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ کی صدارت میں ہونے والے ڈائریکٹر جنرلز آف پولیس کے اجلاس میں پیش کی گئی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر ہماری افواج پوری طرح نگرانی نہیں رکھ پا رہی ہیں۔
ایل اے سی کے قریب کچھ علاقوں میں صورتحال زیادہ نازک ہے۔ ان کے بقول مذکورہ اجلاس میں پیش کی جانے والی دستاویزات میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ لداخ میں ایل اے سی پر بھارت نے 65 پیٹرولنگ پوائنٹس میں سے 26 پوائنٹس گنوا دیئے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ چین کے پاس پانچ تھئیٹر کمانڈ ہیں۔ جبکہ بھارت کے پاس صرف ایک ہے۔
خیال رہے کہ ہنگامی حالات میں تینوں مسلح افواج کے درمیان رابطہ کاری کے تحت ایکشن لینے والے یونٹ کو تھئیٹر کمانڈ کہتے ہیں۔ پشپ رنجن کے مطابق بھارت میں صرف ایک تھئیٹر کمانڈ قائم کیا گیا ہے اور وہ بھی 2003ء میں ہوا تھا۔ اسے انڈمان نکوبار میں تیار کیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے بھی جو کہ قوم پرستی کی بہت بات کرتی ہے، اسے ابھی تک قائم نہیں کیا۔ پشپ رنجن کے مطابق تبت میں چین کے 10 ایئرپورٹ ہیں۔ جو سویلین اور عسکری دونوں مقاصد کے تحت تعمیر کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ 30 ایئرپورٹ زیر تعمیر ہیں۔ دو تین سال سے ہائی اسپیڈ ٹرین کی خدمات بھی شروع کی گئی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے فروغ سے چین کے لیے متنازع علاقے میں کہیں بھی رسد پہنچانا بہت آسان ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ چین نے سیٹلائٹ اور روبوٹ کے ذریعے بھی نگرانی شروع کر دی ہے۔ دوسری جانب اتراکھنڈ سے لداخ تک بھارت کے جتنے بھی ایئر پورٹس ہیں۔ وہ چینی ایئرپورٹس کی مانند معیاری نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے بھارت کے لیے رسد پہنچانا بہت آسان نہیں۔ مودی کے تازہ اقدامات سے چین کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔