کاشف ہاشمی/ حسام فاروقی :
تحقیقاتی اداروں نے کراچی پولیس آفس اور اس کے اطراف صدر پولیس لائن میں سیکیورٹی کی ناقص صورت حال پر رپورٹ مرتب کرکے اعلیٰ افسران کو ارسال کردی ہے۔
ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہشت گردوں نے مستقل طور پر سیکورٹی نہ ہونے کے باعث ہی، پولیس لائن سے، کے پی او ( کراچی پولیس آفس) میں داخل ہونے کا آپشن استعمال کیا۔ دہشت گرد، کے پی او کی کئی دنوں سے ریکی کر رہے تھے اور کے پی او، کے اندرونی راستوں اور اندر موجود مختلف دفاتر کی لوکیشن سے مکمل طور پر واقف تھے۔ پولیس آفس میں داخل ہونے سے قبل دہشت گردوں نے مسجد کے ساتھ موجود خاردار تار کو کاٹا اور وہاں کھیلنے والے بچوں کو ڈانٹ کر گھروں میں جانے کا کہا تھا۔
یہ کارروائی مختلف دہشت گرد تنظیموں کا ’جوائنٹ وینچر‘ قرار دی جا رہی ہے، جس کی فنڈنگ ذرائع کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کی ہے۔ تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد کس مقام سے آئے اور کس طرح کے پی او سے متصل پولیس لائن میں داخل ہوئے؟ ان کے روٹس کے حوالے سے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ بھی حاصل کرلی گئی ہے اور مزید سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی جارہی ہیں۔ ان کے روٹس کے حوالے سے باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ دہشت گردوں کا روٹ میپ تیار کیا جا سکے۔ جبکہ جیو فیسنگ کا مرحلہ بھی 50 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔ اس دوران کچھ ایسے موبائل فون نمبروں کی معلومات بھی تحقیقاتی اداروں کے ہاتھ لگی ہے جو دہشت گردی کے واقعے کے روز ہی رجسٹرڈ ہو کر آن ہوئے اور پھر دہشت گردوں کے ہلاک کر دیے جانے کے بعد بند ہو گئے۔ ان میں سے کچھ نمبروں کی لوکیشن سرحد پار کی آئی ہے۔
آپریشن مکمل ہو جانے کے بعد رات گئے، کے پی او میں پھر سے سیکورٹی نا ہونے کے برابر تھی اور دہشت گردوں کی گاڑی بھی مذکورہ مقام پر بنا لاک کے کھڑی تھی۔ جبکہ پولیس آفاس کے اندر بھی عام افراد با آسانی آ اور جا رہے تھے۔ کراچی پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردوں کی جانب سے کئے جانے والے حملے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دو پولیس ٹرینگ سینٹرز، گارڈن پولیس لائن، آئی جی سندھ کے دفتر، سی ٹی ڈی سول لائن اور گارڈن سمیت مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ان دفاتر کو جو کراچی کے مرکز میں موجود ہیں، حساس قرار دیا ہے۔ اور ان پر پھر سے دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کئے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
17 فروری کی شام نماز مغرب کے بعد کراچی پولیس چیف کے دفتر میں تین دہشت گردوں کی جانب سے با آسانی گھس کر حملہ کیا گیا تھا۔ اور کئی گھنٹوں تک دہشت گردوں نے کے پی او کی عمارت کو اپنے قبضے میں لئے رکھا تھا، جسے بعد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں سے خالی کروایا اور دہشت گرد وں کو جہنم واصل کیا۔
تحقیقاتی اداروں نے کراچی پولیس آفس کے اطراف پولیس لائن میں سیکورٹی کے ناقص انتظامات کو اس معاملے کا ذمے دار قرار دیا ہے، جس کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا اور دہشت گرد اس سیکورٹی لیپ سے مکمل طور پر واقف تھے۔ دہشت گرد، کے پی او میں صدر پولیس لائن کی طرف سے داخل ہوئے تھے جہاں پولیس اہلکاروں کی رہائش گاہیں ہیں۔ دہشت گرد پولیس لائن میں اپنی کار نمبر ALF043 باآسانی لے کر اندر گئے اندر گھستے ہی الٹے ہاتھ پر مدینہ مسجد تک آئے جہاں ایک لوہے کا پائپ لگا ہوا ہے تاکہ گاڑیاں آگے نا جا سکیں۔ وہاں گاڑی کھڑی کرکے دہشت گردوں نے گاڑی میں موجود اسلحہ اور دیگر سامان نکالا، جس کے بعد وہاں کھیلنے والے پولیس اہلکاروں کے بچوں کو ڈانٹ کر بھگایا۔
پولیس لائن کے مکینوں کے مطابق پولیس لائن کی جانب کے پی او کی پولیس چوکی پر کوئی بھی پولیس اہلکار موجود نہیں تھا۔ دہشت گردوں نے باآسانی چوکی کے پاس خاردار تاریں کاٹی اور کے پی او، کے اندر چھلانگ لگا دی جس کے بعد انہوں نے عمارت کی اوپری منزلوں پر مورچے قائم کیے۔
سی ٹی ڈی ذرائع کا کہنا ہے کہ امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا کراچی پولیس چیف کے دفتر پر کئے جانا والا یہ حملہ مختلف دہشت گرد تنظیموں کا جوائنٹ وینچر مشن تھا۔ جس میں ممکنہ طور پر تحریک طالبان پاکستان سواتی گروپ، سندھ ریوولیشن آرمی، بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگرکالعدم جماعتیں ملوث ہو سکتی ہیں۔ اس کی فنڈنگ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے کی گئی۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی پاکستان میں ہونے والے مختلف دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت تفتیشی اداروں کے پاس موجود ہیں۔
دوسری جانب مختلف سوشل ویب سائٹس پر یہ افواہیں بھی گردش کرتی دکھائی دیں کہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔ مگر اس بات کی کسی بھی جانب سے کوئی تصدیق نہیں ہو پائی۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ کراچی پولیس چیف کے دفتر میں حملہ کرنے والے دہشت گرد کے پی او کی عمارت کی مکمل معلومات رکھتے تھے اور انہیں مرکزی اور عقبی دروازوں کی بھی مکمل معلومات حاصل تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو اس بات کا علم بھی تھا کہ کن اوقات میں کے پی او اور پولیس لائن میں سیکیورٹی نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
دہشت گرد جب عمارت میں داخل ہوئے تو انہیں ہر منزل پر موجود دفاتر کی مکمل معلومات تھیں۔ اسی وجہ سے دہشت گرد سیدھا اندر داخل ہوتے ہی چوتھی اور پانچویں منزل پر با آسانی پہنچے اور وہاں ان میں سے ایک دہشت گرد نے چوتھی منزل پر اوپر آنے والے راستے پر مورچہ قائم کیا۔ جبکہ اس کے باقی دونوں ساتھی چھت پر چلے گئے، جہاں انہوں نے مورچہ قائم کرکے نیچے فائرنگ کرنا شروع کی۔ اس کے ساتھ ساتھ لفٹ کو بھی دہشت گردوں کی جانب سے اوپر بند کر دیا گیا تھا، تاکہ لفٹ کا استعمال کرتے ہوئے کوئی اوپر نا پہنچ سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے پاس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اہم دستاویزات اور موبائیل فون اور سمز بھی ملی ہیں جنہیں تحقیقاتی اداروں اپنی تحویل میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردوں کے پاس سے برآمدگی کیا کیا ہوئی ہے؟ اس بارے میں پولیس کی جانب سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے اور نا ہی پولیس دہشت گردوں کے پاس سے ملنے والے دستاویزات اور موبائل فون کی تصدیق کر رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں اہم پیش رفت متوقع ہے اور دہشت گردوں کے کراچی میں موجود سہولت کاروں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی کراچی پولیس کو ہوش نہیں آسکا اور کے پی او میں آپریشن مکمل ہونے کے بعد عمارت پر رات گئے سیکورٹی نا ہونے کے برابر دکھائی دی ، جہاں ہر کوئی با آسانی آجا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جس مقام پر دہشت گردوں کے زیر استعمال گاڑی کھڑی تھی، اسے بھی وہاں سے نہیں ہٹایا گیا تھا اور نا ہی گاڑی لاک تھی۔ گاڑی کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے صرف گاڑی کا ایک ٹائر پولیس کی جانب سے گولی مار کر پھاڑدیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد تحقیقاتی اداروں نے کے پی اور کے اطراف میں موجود سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ ساتھ کراچی کی مختلف شاہراہوں پر نصب ایک ہزار سے زائد کیمروں کی ریکارڈنگ بھی اپنی تحویل میں لی ہے جس کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ دہشت گردوں نے کے پی او پہنچنے کے لئے کس روٹ کا استعمال کیا اور ان کی گاڑی کراچی کے کس علاقے سے نکل کر مرکزی شاہراہ تک پہنچی؟ جس کی مدد سے تحقیقاتی اداروں کو دہشت گردوں کا روٹ میپ تیار کرنے میں آسانی ہوگی۔
سی ٹی ڈی ذرائع کا کہنا ہے کہ جو دہشت گرد اس واقعے میں ملوث تھے، امکان ہے کہ وہ مسنگ پرسن کی فہرست میں بھی شامل ہیں جس پر تفتیش تیز رفتاری سے جاری ہے۔ اس واقعے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جہنم واصل کئے جانے والے دہشت گردوں کی شناخت بائیومیٹرک کے ذریعے کی گئی ہے جس میں سے ایک دہشت گرد کا نام مجید بلوچ سامنے آیا ہے جو بلوچستان کا رہائشی ہے۔ جبکہ دوسرے دہشت گرد کی شناخت کفایت اللہ ولد میرز علی خان جو لکی مروت کا رہائشی ہے اور اس کی تاریخ پیدائش چار مئی 2001ء سامنے آئی ہے۔ جبکہ خودکش بمبار کی شناخت زالہ نور ولد وزیر رحمان کے نام سے ہوئی ہے جو شمالی وزیرستان کا رہائشی ہے اور اس کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 2003ء ہے۔