نواز طاہر :
سیاسی جماعتوں میں ایک پاکستان اور دو پاکستان بنانے کی بحث میں ایک تیسرے پاکستان کی’ بنیاد‘ رکھ دی گئی ہے جو ٹیکس اور یوٹیلٹی بلوں و مراعات اور سہولیات کا پاکستان ہوگا۔
یہ اعلان پی ڈی ایم کی پی ڈی ایم کی مرکزی حکومت کے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اشرافیہ کے بجائے غریب طبقے کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب غریب طبقے کو امرا جیسے ٹیکسوں اور یوٹیلٹی بلوں سے نجات ملے گی اور اشرافیہ کو اپنی آسائشوں کے مطابق ٹیکس دینا پڑے گا۔
یہی نہیں بلکہ صنعت پر بھی یہی اصول لاگو ہوگا۔ جو صنعت جس کام کیلئے لگائی گئی ہے، وہی کام کرے گی اس کی آڑ میں سبسڈی لے کر اس سبسڈی سے کوئی دوسرا کام نہیں کرے گی۔
اس کی ابتدا گیس کی قیمتوں اور فراہمی کے طریقِ کار سے کی گئی ہے، جس کیلئے غریب طبقے کو کم اور امرا کو زیادہ نرخ ادا کرنا پڑیں گے۔ پیٹرولیم کے وزیر مملکت نے اتوار کو لاہور پریس کلب میں گیس کے نئے نرخوں کے سلیب کا اعلان کیا۔ اعلان کردہ سلیب کے اگرچہ نرخ نئے ہیں، لیکن ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سلیب نئے نہیں ہیں اورانہی سلیبس کے مطابق بلنگ کئی ایک بار تجویز کی گئی۔ مگر عشرے گزرنے کے باوجود کسی نے رسک نہیں لیا۔ بلکہ اس کے برعکس اشرافیہ، حکومتی اقدامات اور سبسڈی سے مستفید ہوتی رہی۔ جبکہ اس کا احسان عام آدمی پر جتایا جاتا رہا۔ یہی نہیں بلکہ گیس حاصل کرکے سبسڈائزڈ مال تیار کرنے کے نام پر بھی سرکاری وسائل سے تجوریاں بھری گئیں۔ یہاں تک کہ گیس جن مقاصد کیلئے حاصل کی گئی، اس کے برعکس مصنوعات تیار کی گئیں اور گیس و بجلی دونوں سے دولت سمیٹی گئی۔
وزیر مملکت نے اس کی جزوی طور پر تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ، اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب جو صنعت کار جس مقصد کیلئے گیس و بجلی لے گا، اسی مخصوص مقصد کیلئے استعمال کرے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ کسی اور مقصد کیلیے استعمال کرے۔ اس غلط استعمال کے نتیجے میں کئی صنعت کاروں نے سبسیڈائز گیس سے بجلی بنانا شروع کردی ۔
اسی سے دوسرے کام کرکے کمائی شروع کردی۔ ہم نے ان بڑی بڑی گاڑیوں والے صنعت کاروں کی غریب طبقے کے مفاد میں حوصلہ شکنی کرنی ہے، جو گیس کے حصول کیلیے وزیراعظم کی ضافتوں اور وزرا کے دفاتر کے چکر لگاتے ہیں اور انہیں جواب دینا یا انکار کرنا بھی آسان نہیں لیکن اب ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ایسے لوگوں کے مفاد کے بجائے نتائج کی پرواہ کیے بغیر پسے طبقے کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اوراس اسٹینڈ کیلئے وزارت آنا جانا بے معنی ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ماضی میں پیٹرولیم کے وزرا گیس کے اس منفی استعمال پر خاموشی اختیار کرتے رہے ہیں اور صنعتی اداروں سے’ تعاون ‘ کے قصے بھی زباںِ زدِ عام رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ، نئے سلیبس میں آج کے کے بعد غریب آدمی کے لیے گیس کی قیمت علیحدہ ہوگی اور امیر آدمی کی علیحدہ ہوگی۔ غریب آدمی دو یونٹ گیس استعمال کرے تو کم قیمت دینی ہوگی اور اگر ڈیفنس، کلفٹن، گلبرگ، ایف 6 جیسے علاقوں میں رہنے والے جب دو یونٹ استعمال کریں گے تو گیس کی قیمت زیادہ ہوگی اور انہیں دینی پڑے گی۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان کے ساٹھ فیصد لوگوں کے بل گھٹا دیے گئے ہیں یا برقرار رہیں گے۔ جب دس یونٹ بجلی امیر استعمال کرے گا تو دوگنے پیسے دے گا، لیکن وہی دس یونٹ اگر غریب استعمال کرے گا تو آدھے سے کم پیسے دے گا۔ آج ہم نے ٹی اسٹال والے کا پاکستان علیحدہ کردیا ہے اور سیٹھ اور فیکٹری چلانے والے کا الگ کردیا ہے۔ اگر ٹی اسٹال والا گیس استعمال کرے گا تو صرف آٹھ سو روپے دے گا۔ جبکہ سیٹھ یا فیکٹری مالک دو ہزار روپے دے گا۔
مصدق ملک نے کہا کہ، ان تمام آسائشوں پر ٹیکس لگائیں گے کیونکہ یہاں پر دو ملک بنائے جا چکے ہیں جن کا ختم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک امیر کا ملک ایک غریب کا ملک، ایک طاقتور کا ملک اور ایک کمزور کا ملک، آج ہم نے دونوں ممالک کو علیحدہ کردیا ہے اور حکومت نے غریب آدمی کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے امیر اور طاقتور کے ساتھ نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ گیس کی چوری روکنے کیلیے اس کی ذمے داری بھی متعلقہ فیلڈ افسروں پر عائد کی جارہی ہے۔ ایسا نظام بنایا جارہا کہ ہر لائن مانیٹر ہوگی، وہاں میٹر لگیں گے اور ان کے مطابق بلنگ ہوگی۔ اب گیس کی چوری صرف چوروں پر ہی پڑی گی، کسی دوسرے پر اس کا بار نہیں آئے گا اور فیلڈ آفیسر اس کا ذمہ دار ہوگا۔ جہاں تک غریب اور امیر طبقے کے ’الگ پاکستان‘ اور اس کی بلنگ کی بات ہے تو یہ واضح فرق ہے کہ اگر کوئی بیوہ کسی کچی بستی میں رہتی ہے تو اس کا تقابل ڈیفنس، کلفٹن جیسے علاقے میں رہنے والی بیوہ سے نہیں کیا جاسکتا۔
دونوں میں واضح فرق ہے۔ ڈیفنس کلفٹن میں رہنے والے بیوی کے وسائل کچی بستی کی بیوہ کے مقابلے میں الگ ہیں۔ اس لئے اس میں کوئی ابہام نہیں کہ غریب طبقے کی مراعات سے اشرافیہ لے جائے گی۔ لاہور میں مختلف اوقات میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی گیس چوری پکڑے جانے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ، میرے موجودہ کام میں صحافیوں نے بڑی معاونت کی ہے۔ مستقبل میں بھی میں یہی معاونت چاہوں گا۔
دوسری بات یہ کہ مجھے کسی صحافی نے ابھی تک آئوٹ آف ٹرن میرٹ اور قاعدے ضابطے کے برعکس گیس کے کنکشن سمیت کسی کام کیلئے نہیں کہا۔ میں نے ان بھائیوں سے کہا تھا کہ میں نے کسی صحافی بھائی کا کوئی ایسا کام کیا تھا تو پھر اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بھی بے بس ہوں گا اور ان کے کام بھی ایسے ہی کرنا پڑیں گے۔ اس معاملے میں سخت گیری کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں تک لائن لاسز اور چوری کی بات ہے تو درآمدی میٹرز سے گیس کی چوری ممکن ہی نہیں رہے گی۔