احمد خلیل جازم :
حال ہی میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ’کام سیٹ‘ کے انگریزی کے پرچے میں ایک ایسا شیطانی سوال دیا گیا جس نے کروڑوں پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے۔ بہن، بھائی کے مقدس اور قابل فخر رشتے کو گھنائونے عمل کے مضمون پر باندھنے کی کوشش کی گئی، جس پر طلبہ سمیت پاکستان بھر کے علمائے کرام اور سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہے۔
علما کا کہنا ہے کہ مادر پدر آزاد پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز میں اساتذہ کو اخلاقی معیارات کے بجائے باہر سے لی گئی ڈگریوں پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ وہاں ایسے سوالات پوچھنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ حکمران اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھاتے۔ چند دن یہ معاملہ چلے گا۔ اس کے بعد کوئی نیا ایشو کھڑا ہوجائے گا اور یہ معاملہ دب جائے گا۔
اس حوالے سے سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوئی مرکزی، نظریاتی اور معیاری تعلیمی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ لہٰذا جو ہماری نئی نسل ہے، وہ طرح طرح کے انگلش میڈیم اسکولز، امریکن بیس اور اکسفورڈ بیس اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ظاہر ہے وہ ایک میکانائز یعنی مشینی انسان تو بنا دیتے ہیں۔ لیکن وہ کوئی نظریاتی انسان بنانے سے قاصر ہیں۔
کسی تعلیمی نظام کی مثال موسیقی اور جھنکار سے معنون ہو تو اس سے اخلاقی انسان تو وجود میں نہیں آسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں وقتی طور پر شور و غوغا ہوتاہے۔ سوشل میڈیا پر چیخ پکار ہوتی ہے۔ اگلے روز کوئی اور ایشو سامنے آجاتا ہے تو پچھلا ایشو دفن ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ میڈیا کو تو اپنی دکان چلانے کے لیے تازہ مال چاہیے۔ انہیں قومی، ملی اور دینی ترجیحات سے دور دور تک واسطہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے اساتذہ جو مستقل بنیادوں پر رکھے جائیں تو ان کی سلیکشن کا معیار ہونا چاہیے، کیا وہ ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی ہوں گے؟ استحقاق کے بغیر اگر کوئی پوسٹ کسی کو دی جائے گی تو ظاہر ہے پھر اس سے ضرورت کے مطابق کام بھی لیا جاسکتا ہے۔
اب دیکھیں کہ بہن بھائی کے پاک رشتے میں دراڑ ڈالنے کی کوشش ان ممالک کے اداروں میں بھی نہیں دیکھی جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے تعلیمی ادارے مذہب پابند تو نہیں ہیں، لیکن ان کی اپنی تہذیبی اور اخلاقی ویلیوز ہیں جن پر وہ چلتے ہیں۔ جیسے وہاں جو عام لوگوں کو رعایتیں حاصل ہیں، ان کی سیاسی قیادت کے لیے وہ جائز نہیں سمجھی جاتیں اور اسے برداشت نہیں کیا جاتا۔ اب وہاں رات دس بجے سے پہلے کسی قسم کی یاوہ گوئی یا فحش مواد ٹی وی پر نہیں دکھایا جاتا۔ جب تک کہ اسکول جانے والے بچے سو نہیں جاتے۔
ہمارے ہاں تو چوبیس گھنٹے خرافات چل رہی ہیں، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ سیاسی قیادت کو اپنے عوام اور فلاح سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف اقتدار کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ رہی علما کی بات، تو جدید الیکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا ڈرائیونگ سیٹ پر تو علما کو نہیں بٹھایا جاتا۔ میڈیا جسے چاہے آسمان پربٹھا دے، چاہے تو زمین پر گرا دے۔ وہ چاہیں تو کرکٹ کا ایک چھکا کائنات کاسب سے بڑا کارنامہ بن جائے۔ اخلاق، اور کردارکی توکوئی قدر و قیمت ہی نہیں رہی۔ علما بے بس ہیں‘‘۔
معروف عالم دین اور پارلیمنٹرین مولانا غلام اکبر چترالی کا کہنا تھا کہ ’’اس معاملے پر اگرچہ یونیورسٹی نے انکوائری کا لیٹر جاری کرکے اس لیکچرر کو نکال دیا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کون سا محکمہ یا تعلیمی ادارہ ہے جس پر حکومت پاکستان کی گرفت ہے؟ کون سا نصاب حکومت دے سکی ہے؟ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ آپ جتنے طاقتور ہیں اتنی زیادہ بدمعاشی پھیلاتے جائیں، آپ کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔
حکومت کی طرف سے کہیں کنٹرول کا نظام نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے کام کر رہا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارا نصاب مرتب کرنے والے بھی برطانیہ اور امریکہ سے آئے ہوئے ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں انہی کی عمل داری ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم یورپ کی تقلید میں اس طرح مبتلا ہوئے کہ ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ کی مثال بن گئے ہیں۔ ہم نقل اتار، اتار کر درمیان میں پھنس گئے ہیں۔ نہ یورپی ہوسکے نہ اپنا دینی تشخص اپنا سکے۔
ایسی یونیورسٹیز کے خلاف حکومت کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔ اسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن یا کوئی بھی اور ادارہ جس سے متصل ہیں، اس سے نکال باہر کر اس پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ یہ آئین پاکستان اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ یہ بائیس کروڑ عوام کی توہین ہے۔ ہم اسے اسمبلی میں بھی اٹھائیں گے اور برے کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے۔‘‘