سات دھڑوں والی مسلم لیگ پھرٹوٹ گئی

لاہور ( نواز طاہر سے)
اپنے قیام سے لیکر وطنِ عزیز کے معرض وجود میں آنے سے پہلے تک اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے والی مسلم لیگ قیام پاکستان کے بعد مقتدر حلقوں کے زیر اثر رہنے اور بار بار تقسیم ہونے کے بعدایک بار پھر تقسیم ہوگئی ہے تاہم اس بار مسلم لیگ کے ابتدائی اہم رہنما چودھری ظہور الٰہی خاندان کی قیادت میں قائم مسلم لیگ ق تقسیم ہوئی اور پہلی بار اس دھڑے کے اہم ترین رہنما نے مسلم لیگ کا کوئی نیا دھڑا بنانے کے بجائے کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ خاندانی،سیاسی تقسیم کا یہ عمل منگل کو چودھری پرویز الٰہی اور ان کے حامی دس سابق اراکین اسمبلی کی پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت سے ہوا جبکہ اس سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کو پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی کوشش میں ناکامی اور پارٹی دسپلن کی خلاف ورزی پر جماعت کے سربراہ چوھری شجاعت حسین نے پارٹی سے نکال دیا تھا اوراب وہ ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے پاس پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں جماعت کا صدر بنانے کا آسرا دیا گیا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ مختلف ادوار میں تقسیم ہوتی رہی لیکن مجموعی طور پر سبھی پر اسٹیبلشمنٹ کی چھتری رہی اور جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحد ہوئے بعد میں وہی اسٹیبلشمنٹ کا بھی حصہ بنتے گئے اور یہ سارا عمل انتخابی عمل کے قریب ہی وقوع پذیر ہوتا رہا ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کے موقع پر خان عبدالقیوم خان ، سردار ظفر اللہ ، سردار شوکت حیات، چودھری ظہور لٰہی ، ممتاز دولتانہ ، محمد حسین چٹھہ اور خواجہ صفدر نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا جبکہ چودھری خلیق الزمان کی قیادت میں ایوب خان کی مسلم لیگ نے ایوب خان کا الیکشن لڑا، سنہ انیس سو باسٹھ کے بعد کونسل لیگ اور کنونشن لیگ سے مزید کئی ایک دھڑے وجود میں آئے، الیکشن میں دھاندلی سے شکست کے بعد مادر ملت فاطمہ جناح نے 1965 میں نیشنل گارڈز اور دیگر ساتھیوں کو متحد کرکے مسلم لیگ فنکشنل کی بنیاد رکھی جس کا سربراہ پیر صاحب پگارا دوئم (سید شاہ مردان شاہ) کو بنایا۔

اس وقت بحیثیت سیاسی جماعت مسلم لیگ کے سات دھڑے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ اور قومی سیاست میں فعال ہیں جن میں مسلم لیگ نواز شریف گروپ جنرل ضیاءالحق کی سرپرستی میں سنہ انیس سو بانوے میں بنا جبکہ اس سے پہلے جنرل ضیاءالحق کی طرف سے حکومت ختم کیے جانے پر معزول وزیراعظم محمد خان جونیجو نے1988 میں مسلم لیگ جونیجو بنا لی ، اس وقت مسلم لیگ ن کی غیر سرکاری طور پر داغ بیل ڈال دی گئی تھی ، لیکن عملی طور پر اس کا وجود انیس سو بانوے میں عمل میں آیا جب اسلامی جمہوری اتحاد ختم ہوا ۔ ستانوے کے الیکشن کے بعد شریف خاندان اور چودھری خاندان میں چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نہ بنائے جانے پر اختلافات سامنے آنا شروع ہوئے، جب انیس سو ننانوے میں جنرل پرویزشرف نے نواز شریف حکومت برطرف کی تو سنہ دو ہزار دو میں چودھری شجاعت حسین اور میاں محمد اظہر کی قیادت میں مسلم لیگ قائد اعظم وجود میں آئی لیکن الیکشن میں پارٹی کے سربراہ میاں اظہر کی ہار کے بعد وہ لا تعلق ہوگئے اور چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے جبکہ میر طفر اللہ جمالی کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے اور شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کےبعد کچھ عرصے کیلئے جنرل پرویز مشرف کی آشیر باد سے چودھری شجاعت حسین کو وزیر اعظم بنایا گیا۔سنہ دو ہزار دو میں ہی جنرل ضیاءالحق کے صاحبزادے عجاز الحق نے مسلم لیگ ضیاءبنا لی ۔ اس سے پہلے جونیجو لیگ میں رہنے والے میاں منظور احمد وٹو اور حامد ناصر چٹھہ نے مسلم لیگ جناح قائم کی اور وٹو اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ ن کے غلام حیدر وائیں کو ہٹا کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے لیکن بعد یہ پارٹی مسلم لیگ ق میں ضم ہوگئی، سنہ دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں مسلم لیگ ق سے علیحدگی کے بعد شیخ رشید احمد نے بھاشانی اور سہروردی کی عوامی مسلم لیگ اور عوامی لیگ سے مشابہہ نام پر عوامی مسلم لیگ پاکستان بنا لی۔ سنہ دو ہزار میں صدارت سے علیحدگی کے بعد جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں سنہ دو ہزار دس میں آل پاکستان مسلم لیگ بنائی گئی ، اس سے پہلے مسلم لیگ کے گروپوں اور جماعتوں میں یہ پہلی جماعت دائیں کے بجائے بائیں بازو اور روشن خیال نظریات کی بنا پر قائم کی گئی۔ اس سے پہلے سنہ انیس سو ستر میں مسلم لیگ کنونشن اور کونسل کو متحد کرکے مسلم لیگ (قیوم) بھی بنائی گئی جوسنہ انیس سو تراسی تک برقرار رہی ۔مسلم لیگ کی توڑ پھوڑ کے اس عمل میں عسکری اداروں کے حق اور مخالفت کا پہلو شامل رہنے کے ساتھ ساتھ اگلی نسل اپنے سیاسی قبلے تبدیل کرتی رہی اور اب مادرِ ملت کے ساتھ چودھری ظہور الٰہی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ان کے بھتیجے چودھری پرویز الٰہی نے سیاسی زندگی کا پانچواں عشرہ شروع ہونے پر اپنے سے دو سال سیاسی سینئر اور عمر میں پانچ سال سینئرکزن چودھری شجاعت حسین سے راہیں جدا کرکے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے ، چودھری ظہور الٰہی کے خاندان میں یہ تقسیم بھی عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کے وقت شروع ہوئی تھی ۔ اب دونوں مدِ مقابل آگئے ہیں اور چودھری پرویز الٰہی اسی جماعت کا حصہ بن گئے ہیں جس میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب بھی شامل ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گجرات کی تاریخ میں پہلی بار یہ خاندان ایک دوسرے کے سامنے انتخابی عمل میں جائے گا تو اس میں جیت جس کی بھی ہو گی ،مگر شکست چودھری ظہور الٰہی کی سیاست ہوچکی ہے جہاں پی ٹی آئی کے دھڑے پہلے سے موجود ہیں اور چودھری پرویز الٰہی سے ذاتی مخالفت رکھنے والے بھی اثر رکھتے ہیں تاہم چودھری شجاعت حسین کے بارے میں گوشہ قدرے نرم رکھتے ہیں اور اس سے چودھری خاندان کے روایتی خاندانی سیاسی مخالفین فائدہ اٹھائیں گے ۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی میں گزشتہ ایک سال کےسوا اسے پہلے کے صوبائی حکومت کے عرصے میں پی ٹی آئی کے کئی ایک رہنما چودھری پرویز الہی سے نالاں رہے ہیں تاہم پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا رہنےپر عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کی ہر سطح پر تعریف بھی کی ۔ مسلم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کی ضد قائم رہنے پرچودھری شجاعت حسین نے انتہائی گلوگیر لہجے میں ان کی بنیادی رکنیت ختم کی چودھری پرویز الٰہی نےبھی بھائی کی’ ضد ‘ پر دل گرفتہ ہو کر فیصلے کیے لیکن یہ وہ آنسو ہیں جو اب بہہ گئے ہیں ۔