عمران خان کی 9 مقدمات میں ضمانت کی درخواست پر سماعت آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوگی۔ فائل فوٹو
عمران خان کی 9 مقدمات میں ضمانت کی درخواست پر سماعت آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوگی۔ فائل فوٹو

عمران خان کے پر اسرار پلاستر کا بھانڈا پھوٹ گیا

امت رپورٹ :

عمران خان کی زخمی ٹانگ پر چڑھے پلستر کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ مختلف اوقات میں چیئرمین پی ٹی آئی کا انٹرویو کرنے والے ایک سے زائد ملکی و غیر ملکی صحافیوں سے کی جانے والی آف دی ریکارڈ گفتگو سے معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کی ٹانگ کے زخم مندمل ہوچکے ہیں۔ اور اب محض سیاسی مقاصد کے لئے انہوں نے اپنی ٹانگ پر اسپلنٹر (ہڈی کو سہارا دینے والا کور) چڑھا رکھا ہے۔

اس ڈرامہ بازی کا بنیادی مقصد عدالتوں میں پیشیوں سے بچنا ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرنے والے ایک سے زائد معروف آرتھوپیڈک سرجنز کا بھی یہی کہنا ہے کہ اتنے عرصے میں براہ راست گولیاں لگنے والے زخم بھی مندمل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ عمران خان کو صرف گولیوں کے ٹکڑے لگے تھے۔ ایک آرتھوپیڈک سرجن کا یہ بھی کہنا تھا کہ گولیوں کے ٹکڑے لگنے سے عمران خان کی دائیں ٹانگ کے گھٹنے کے نیچے ہڈی میں کریک یا معمولی فریکچر ہوا تھا، جو آٹھ ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ادھر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بھی عمران خان کا طبی معائنہ کرانے کے لیے بینکنگ کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ تاکہ اس ڈرامے کا خاتمہ کیا جاسکے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے۔ ان کو آرتھوپیڈک کا مسئلہ ہے۔ لیکن میڈیکل رپورٹ کینسر اسپتال کی جمع کروارہے ہیں۔ شوکت خانم اسپتال کی سربراہی عمران خان کرتے ہیں۔ لہٰذا اس میڈیکل رپورٹ کو معتبر تسلیم نہیں کرسکتے۔ چناں چہ عمران خان کا طبی معائنہ پمز یا پولی کلینک اسپتال سے کرایا جائے۔ یاد رہے کہ اب تک عمران خان کی زخمی ٹانگ کے حوالے سے ان کے اپنے شوکت خانم میموریل اسپتال کے ڈاکٹروں کی طبی رپورٹ ہی سامنے آئی ہے۔

چار ماہ قبل ہونے والے حملے کے قریباً ایک ماہ بعد پچیس نومبر کو عمران خان کی دائیں ٹانگ کا فریکچر ٹھیک ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تین ماہ پہلے ڈاکٹروں نے عمران خان کا پلستر اتار دیا تھا اور انہیں صرف لیگ اسپلنٹر (Leg Splinter) پہننے کا کہا تھا، تاکہ ٹانگ کی ہڈی کو سہارا ملا رہے۔ آج کل عمران خان اپنے اکثر انٹرویوزکے دوران یہی اسپلنٹر پہنے دکھائی دیتے ہیں، جس کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔

گزشتہ برس پچیس نومبر کو عمران خان کی دائیں ٹانگ کا پلستر اتارنے والی شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے خود کہا تھا کہ عمران خان کے گھٹنوں کے اوپر لگے زخم ٹھیک ہوگئے ہیں اور فریکچر والا نچلا حصہ ٹھیک ہونے میں چند دن لگیں گے۔ جس کے بعد سابق وزیراعظم سفر کرسکیں گے۔ تاہم انہیں کچھ عرصہ اپنی ٹانگ پر زیادہ وزن نہیں ڈالنا ہوگا۔ لیکن یہ چند دن مہینوں پر محیط ہوچکے ہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی نے مسلسل اپنی ٹانگ پر اسپلنٹر چڑھا رکھا ہے اور ظاہر کیا جارہا ہے کہ تاحال ان کے زخم مندمل نہیں ہوئے اور وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔

تاہم مخالفین اسے ایک ڈرامہ بازی قرار دیتے ہیں اور ان کے بقول متعدد مقدمات میں مطلوب سابق وزیراعظم نے محض عدالتوں سے بچنے کے لئے یہ ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ اگر کسی غیر جانبدار اسپتال سے ان کا تازہ طبی معائنہ کرالیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اس ڈھونگ کی تصدیق حالیہ دنوں میں عمران خان کے انٹرویوز کرنے والے مختلف صحافیوں سے حاصل کردہ معلومات سے بھی ہوتی ہے ۔

پچھلے دو سے تین ہفتوں کے دوران عمران خان سے انٹرویو کرنے والے ایک سے زائد ملکی و غیر ملکی صحافیوں نے آف دی ریکارڈ ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گھر میں خان صاحب بالکل ٹھیک چل پھر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم کیمرے پر آنے سے پہلے اپنی دائیں ٹانگ پر اسپلنٹر چڑھا لیتے ہیں۔

ایک بڑے غیر ملکی میڈیا گروپ کے نمائندے نے بتایا ’’میں جب انٹرویو کرنے زمان پارک لاہور میں واقع عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔ اس دوران دو بار چیئرمین پی ٹی آئی کا ڈرائنگ روم میں آنا ہوا۔ انہوں نے جوتے پہن رکھے تھے، لیکن اسپلنٹر غائب تھا۔

چلتے ہوئے سابق وزیراعظم ہلکا سالنگڑا رہے تھے، لیکن یہ لنگڑاہٹ اتنی معمولی تھی کہ زیادہ محسوس نہیں ہورہی تھی۔ پھر وہ انٹرویو کے لئے فائنلی ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھے تو تب ان کے پائوں میں صرف موزے تھے، لیکن اسپلنٹر بدستور غائب تھا۔ میرے کیمرہ مین نے تیاری پکڑی تو خان صاحب نے انہیں اشارہ کرتے ہوئے روکا اور بولے، ابھی کیمرہ آن نہ کرنا۔

پھر انہوں نے اپنا اسپلنٹر منگوایا اور کہا، اب کیمرہ آن کرلو۔‘‘ اسی طرح ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر نے بتایا کہ جب وہ انٹرویو کرنے عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو انہوں نے اسپلنٹر نہیں پہنا ہوا تھا۔ تاہم کیمرہ آن ہونے سے پہلے خصوصی طور پر اسپلنٹر منگوایا گیا۔

’’امت‘‘ نے ایک سے زائد ایسے آرتھوپیڈک سرجنزسے بھی رابطہ کیا جو ماضی میں بڑے سرکاری عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ ان میں سے ایک معروف آرتھوپیڈک سرجن ، جو پروفیسر ہیں اور اہم سرکاری عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ اب اپنا ذاتی اسپتال چلا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عمران خان کے زبردست حامی ہیں۔ اس لئے بات چیت کرنے سے پہلے انہوں نے برملا یہ اعتراف کیا کہ وہ عمران خان کے ڈائے ہارڈ سپورٹر ہیں۔ لیکن یہاں وہ اپنی سیاسی وابستگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیانتدارانہ رائے دیں گے۔ لہٰذا براہ کرام ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔

پروفیسر سرجن کا کہنا تھا ’’میں نے اپنے بیس پچیس سالہ کیریئر میں درجنوں بڑے اور چھوٹے سیاست دانوں کی طبی رپورٹس تیار کیں۔ ان میں سے زیادہ تر رپورٹس عدالتوں سے ریلیف کے لیے ہوتی تھیں۔ لہٰذا میں اپنے ذاتی اور کیریئر کے تجربے کی بنیاد پر وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سیاست دانوں کی ایسی ننانوے فیصد سے زائد طبی رپورٹس جعلی ہوتی ہیں، جو وہ جیل یا عدالت سے ریلیف کے لیے بنواتے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کی زخمی ٹانگ کا معاملہ ہے، تو جب تک اس حوالے سے کسی غیر جانبدار سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں کی طبی رپورٹ اور ایکسرے منظر عام پر نہیں آجاتے، ہم صرف اندازوں اور اپنے تجربے کی بنیاد پر ہی رائے دے سکتے ہیں۔‘‘

ایک سوال پر معروف سرجن کا مزید کہنا تھا کہ ’’اول تو عمران خان کو گولی براہ راست نہیں لگی بلکہ گولی کے ٹکڑے لگے۔ یوں اگر فریکچر ہوا بھی ہے تو ٹانگ کی ہڈی دو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کی ٹانگ کی ہڈی میں کریک آیا تھا۔ اس طرح کا کریک یا معمولی فریکچر ٹھیک ہونے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ ہفتے لگتے ہیں۔ چونکہ پلستر ہٹایا جاچکا ہے۔ لہٰذا یہ بھی طے ہے کہ ہڈی کا یہ کریک یا معمولی فریکچر ٹھیک ہوچکا ہے۔ اگر فریکچر اور کریک ٹھیک نہ ہوا ہو تو ٹانگ کی سپورٹ کے لئے صرف اسپلنٹر کافی نہیں ہوتا۔‘‘

ایک اور معروف آرتھوپیڈک سرجن نے بتایا کہ ’’اگر ٹانگ میں مکمل فریکچر بھی ہو تو تین سے چار ماہ میں انسان چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ ہم ایسے اسپیشل آپریشن بھی کرتے ہیں، جس سے متاثرہ شخص کی ٹانگ میں راڈ ڈال دی جاتی ہے۔ اور چند دنوں بعد اسے چلاکر ہم گھر بھیج دیتے ہیں۔ البتہ ہڈی کو مکمل جڑنے میں وقت لگتا ہے۔ تاہم محض ہڈی میں کریک آیا ہو یا معمولی فریکچر ہوا ہو تو ریکوری بڑا ایشو نہیں ہوتا۔‘‘

معزول وزیر اعظم عمران خان پر تقریباً چار ماہ پہلے گزشتہ برس تین نومبر کو وزیرآباد میں ’’حقیقی آزادی مارچ‘‘ کے دوران اس وقت حملہ ہوا تھا، جب وہ ایک کنٹینر پر کھڑے تھے۔ خود چیئرمین پی ٹی آئی کی سربراہی میں چلنے والے شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال نے اپنی جاری کردہ طبی رپورٹ، سی ٹی اسکین اور ایکسرے سے تصدیق کی کہ عمران خان کی دائیں ٹانگ میں گولیوں کے چار ٹکڑے پائے گئے۔ یعنی انہیں براہ راست گولیاں نہیں لگی تھیں۔ بلکہ یہ گولیاں کنٹینر کی دھات سے ٹکرائیں اور عمران خان کو زخمی کرنے سے پہلے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تھیں۔

شوکت خانم میموریل کیسز اسپتال کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی دائیں ٹانگ میں گولیوں کے دو ٹکڑے گھٹنوں کے اوپر اور دو گھٹنوں کے نیچے لگے تھے۔ ان ٹکڑوں کا سائز محض ایک اعشاریہ ایک سینٹی میٹر سے ایک اعشاریہ آٹھ سینٹر میٹر تھا۔ ایک ٹکڑے نے عمران خان کی دائیں ٹانگ کے گھٹنے کے نیچے ہڈی کو معمولی فریکچر کیا، جبکہ باقی ٹکڑوں نے ٹشوز کو متاثر کیا تھا۔ دائیں ٹانگ میں لگنے والی گولیوں کے چار ٹکڑوں کو آپریشن کرکے نکالا گیا اور پلاسٹر آف پیرس کی پٹی (پلستر) چڑھادی گئی تھی۔ عمران خان کی بائیں ٹانگ میں گھٹنے کے گرد پانچ، چھ دھاتی ٹکڑے ملے تھے۔ لیکن انہیں نہیں نکالا گیا کہ ڈاکٹروں کے بقول اس سے جسم کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔