ق لیگ کو نقصان پہنچانے میں سب سے بڑا کردار مونس الٰہی کا ہے۔فائل فوٹو
 ق لیگ کو نقصان پہنچانے میں سب سے بڑا کردار مونس الٰہی کا ہے۔فائل فوٹو

چوہدری پرویزالٰہی بیٹے کے ہاتھوں مجبور ہوئے

احمد خلیل جازم :
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’جو چوہدری شجاعت کا نہ ہو سکا وہ عمران خان کا کیا ہوگا؟‘‘۔اپنے حلقے میں تقریر کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا ’’یہ جو دو لوگوں (مونس الٰہی اور پرویز الٰہی) نے پی ٹی آئی کی دم پکڑی ہوئی ہے۔ اگر پی ٹی آئی پر برا وقت آیا تو یہ سب سے پہلے چھلانگ لگا کر نکل جائیں گے‘‘۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت گجرات کی سیاست مونس الہٰی کے زیر اثر ہے اور وہی ہیں جنہوں نے اپنے والد کو عمران خان کی طرف لے جانے پر مجبور کیا۔ حالانکہ پرویز الٰہی بالکل اس پر تیار نہ تھے اور آخری لمحے تک وہ چوہدری شجاعت کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ لیکن مونس الٰہی نے اپنے والد پر کئی ماہ سے دبائو ڈالا ہوا تھا۔ چنانچہ چوہدری پرویز الٰہی کو مجبوراً پی ٹی آئی میں شامل ہونا پڑا۔

چوہدریوں کے خاندان سے جڑے ہوئے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ، چوہدری شجاعت کی سیاست اس وقت بھنور میں ہے اور وہ گجرات میں ق لیگ کے پلیٹ فارم سے الگ گروپ کے طور پر الیکشن میں حصہ لیں گے تو ان کے لیے جیت آسان نہیں ہوگی۔

دراصل ق لیگ کو نقصان پہنچانے میں سب سے بڑا کردار مونس الٰہی کا ہے۔ مونس پہلے روز سے ہی اپنی من مرضی کرتے ہیں۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر ان کا کوئی مستقبل ہے، تو وہ پی ٹی آئی میں ہے۔ مسلم لیگ ن وغیرہ میں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے والد کو مجبور کیا کہ وہ پی ٹی آئی میں جائیں۔

پرویز الٰہی کی آخری وقت تک یہ خواہش نہ تھی کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوکر اپنی شناخت ختم کردیں۔ اب بھی پرویز الٰہی کی تمام سیاست مونس الٰہی کی خواہشات کے تابع ہے۔ مونس نے ہی اپنے والد کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے چیف منسٹر لگوایا تھا۔ جب کہ پرویز الٰہی نے کبھی یہ خواہش پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے نہیں کی تھی۔ بلکہ وہ چوہدری شجاعت کی بات مان کر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ دیکھا جائے تو ان کی قریبی رشتہ داری ہے۔

مونس کے گھر میں چوہدری شجاعت کی بیٹی ہے۔ قصہ وہاں سے شروع ہوا جب ق لیگ نے تحریک عدم اعتماد کے وقت وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کا پلان بنایا۔ یہ نورا کشتی تھی کیوں کہ اس وقت بہت زیادہ کنفیوژن تھا کہ پی ڈی ایم کو حکومت مل رہی یا تحریک انصاف کو۔ دونوں کی پوزیشن مضبو ط تھی.

لہٰذا ق لیگ کے آدھے ارکان ایک طرف ہوگئے اور آدھے دوسری جانب چلے گئے کہ جو بھی پارٹی حکمران بنے گی، ق لیگ بہرحال اس میں موجود رہے گی۔ اور وہی ہوا، وفاق میں بھی ق لیگ موجود رہی اور پنجاب تو خیر ویسے بھی انہیں تحریک انصاف کے توسط اقتدار مل گیا۔ لیکن اب صورت حال بالکل الگ ہوچکی ہے۔

اب وہی اختلافات جو جان بوجھ کر پیدا کیے گئے تھے،حقیقت اور شدت اختیار کرگئے کیوں کہ عوامی سطح پر بھی دو گروپ بن گئے ہیں۔ ایک شجاعت کی سپورٹ میں ہے تو دوسرا مونس اور پرویز الٰہی کو سپورٹ کررہا ہے۔ گجرات کی سیاست میں فی الحال مونس الٰہی کا زور چل رہا ہے۔

وہاں پر زیادہ زور پہلے چوہدری وجاہت کا چلتا تھا، جو چوہدری شجاعت کے سگے بھائی ہیں اور پرویز الٰہی کے کزن ہیں۔ لیکن اب وہ بھی پرویز الٰہی کے گروپ میں شامل ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ق لیگ کی صفوں میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وہ کسی نہ کسی جماعت سے الائنس کرکے ہی الیکشن میں حصہ لیں گے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں۔