اقبال اعوان :
کراچی میں انتظامیہ کی نا اہلی سے ڈیری مافیا بے لگام ہو چکی ہے۔ جبکہ شہری بے بس ہو کر مہنگے داموں دودھ خرید رہے ہیں۔ دوسرے صوبوں اور شہروں میں دودھ 140 سے 160 روپے لیٹر تک مل رہا ہے۔ تاہم کراچی میں سرکاری ریٹ 180 روپے لیٹر ہے اور دکانوں پر 210 روپے لیٹر مل رہا ہے۔ ملک بھر میں چارے سمیت دیگر اشیا کے ریٹ یکساں ہیں۔ تاہم کراچی میں ڈیری فارمرز دن بدن دودھ کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں، اب 300 روپے لیٹر تک لے جانے کی دھمکی دی جارہی ہے۔
ڈیری فارمرز کو مضبوط کرنے والی انتظامیہ کے اداروں، کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کی جانب سے بھتہ وصولی کے بعد خاموشی اختیارکرلی گئی ہے۔ دوسرے صوبوں میں غیر معیاری دودھ ثابت ہونے یا کیمیکل سے بنائے گئے جعلی دودھ کے شواہد ملنے پر سیکڑوں من دودھ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے صوبوں میں دودھ مہنگا فروخت کرنے والوں کو جیل بھی بھیجا جارہا ہے۔ لیکن صوبہ سندھ کا شہر کراچی وہ لاوارث شہر ہے جہاں رشوت کے عوض کھلی چھوٹ ہے۔ دودھ غیر معیاری ہو یا مہنگا فروخت کرو، کوئی نہیں پوچھے گا۔
واضح رہے کہ پنجاب کی حکومت نے غیر معیاری دودھ کی سپلائی اور فروخت بڑھنے پر اعلان کیا تھا کہ اگر ڈیری فارمرز نے خالص دودھ نہیں دیا تو صوبے میں فریش دودھ کی فروخت پر پابندی لگا دیں گے۔ اس وقت ملک بھر کی طرح کراچی کے ڈیری فارمرز بھی چیخ اٹھے تھے۔ اس وقت پنجاب میں دودھ 140 سے 160 روپے لیٹر تک فروخت کیا جارہا ہے۔ وہاں قیمتیں اور معیار بھی چیک کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں مہنگا دودھ فروخت کرنے والے دکانداروں کو ایک ماہ کے لیے جیل بھیجا گیا ہے۔ تاہم کراچی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کراچی کے ڈیری فارمرز کی ایسوسی ایشن آئے روز اجناس اور چارہ، بھوسہ بیرون ملک بھیجنے کا رونا روتی ہے اور مسائل بتائے جاتے ہیں کہ چارہ، اجناس اور بھوسہ مہنگا ہے۔ تیل مہنگا ہونے پر ٹرانسپورٹ کا کرایہ بڑھ گیا ہے۔ گوالوں کی اجرت بڑھا دی ہے۔ دودھ والی گائے، بھینس مہنگی ہو چکی ہیں۔ باڑوں کے بجلی کے بھاری بل کی ادائیگی اور دیگر اخراجات بڑھ چکے ہیں۔ اوراس قسم کے بہانے گھڑنے کے بعد دودھ کی فی لیٹر قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ دودھ اگر 300 روپے لیٹر کر دیا جائے، تب ہی ڈیری فارمرز کو فائدہ ہو گا۔ جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے انتظامیہ کو درخواست بھیجی جاتی ہے کہ دودھ کی قیمت فی لیٹر بڑھائی جائے ورنہ شہر میں دودھ کی سپلائی روک دیں گے۔ ایک جانب دبائو ڈالا جاتا ہے تو دوسری جانب بعض کرپٹ افسران سے توڑ جوڑ کر لی جاتی ہے۔ انتظامیہ دودھ کی قیمتیں بھلے نہ بڑھائے، اس کے باوجود ڈیری فارمرز کی ایسوسی ایشن از خود قیمت بڑھا دیتی ہے۔
کراچی میں فریش دودھ یومیہ 60 لاکھ لیٹر سے زائد آتا ہے۔ سپلائی روکنے کی دھمکی دینے والے جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر احتجاج کے دوران یہ صورت حال ہوئی تھی کہ دودھ سپلائی نہ ہونے پر لاکھوں لیٹرز ندی نالوں اور سمندر میں بہایا گیا تھا۔ کیونکہ اتنی بڑی مقدار کی اسٹوریج ناممکن ہے اور وسائل بھی نہیں ہیں۔
باڑوں سے علی الصباح یا شام کو دودھ شہر میں سپلائی ہوتا ہے۔ انتظامیہ نے عرصہ دراز سے کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ کبھی دودھ کے معیار کو چیک کیا گیا ہے۔ کیمیکل ملا دودھ تیار ہو رہا ہے۔ پانی ملایا جاتا ہے۔ جبکہ مختلف جانوروں اونٹنی، بھیڑ، بکری، گائے، بھینس کا مکس دودھ ٹھٹھہ اور بلوچستان سے آتا ہے۔ مشینوں سے دودھ میں موجود کریم نکال لی جاتی ہے۔ دودھ شہر تک آجاتا ہے تو دکاندار مرضی کرتے ہیں۔ ہر دکاندار اپنے مسائل بتا کر مہنگا فروخت کرتا ہے۔
شہر میں لگ بھگ 10 سے 15 ہزار دودھ کی دکانیں ہیں۔ دکانوں پر دودھ، دہی، لسی کی قیمت نہیں لگائی جاتی ہے۔ فوڈ انسپکٹر، کوالٹی کنٹرول، پرائس کنٹرول والے، ٹائون والے، بھتہ وصول کرتے ہیں اب دکاندار دودھ کی قیمت کا بورڈ نہ لگائے اور مرضی سے دودھ فروخت کرے، کوئی نہیں پوچھتا۔ دودھ والی گاڑیاں مقامی پولیس اور ٹریفک پولیس کے لیے سونے کی چڑیا ہیں۔
ڈیری فارم والے ماہانہ سیٹنگ کرتے ہیں۔ کراچی انتظامیہ ڈیری مافیا کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ نجی چینلز یا اخبارات میں خبریں لگنے کے بعد نمائشی کارروائی کی جاتی ہے اور چند دکانداروں پر جرمانہ کر کے معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ چھاپے مارنے والا آفیسر، بالخصوص اسسٹنٹ کمشنر دودھ مہنگا فروخت کرنے والے دکاندار پر جرمانہ کرسکتا ہے۔ اس کو جیل بھیج سکتا ہے۔ اس کی دکان کو سیل کر سکتا ہے۔ تاہم ایسا نہیں کیا جاتا۔