امت رپورٹ :
سپریم کورٹ پاکستان نے ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کے انتخابات نوے روز میں ہوں گے۔ تاہم زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو اس مدت میں الیکشن کرانا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی چودہ جنوری اور خیبرپختونخوا اسمبلی اٹھارہ جنوری کو تحلیل کی گئی تھی۔ چونکہ دونوں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے قبل توڑی گئیں۔ لہٰذا یہاں آئین کے مطابق نوے روز میں الیکشن کرائے جانے ہیں۔ اس لحاظ سے پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہوئے سینتالیس دن ہوچکے ہیں اور محض تینتالیس روز باقی ہیں۔ جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کو توڑے تینتالیس دن گزر چکے ہیں اور سینتالیس روز بعد الیکشن کا دن بنتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اگر نوے روز میں الیکشن کرانے ہوں تو اسے تیاریوں کے لیے کم از کم چون سے اٹھاون دن درکار ہوتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں دونوں صوبوں میں اسے بالترتیب محض تینتالیس اور سینتالیس دن دستیاب ہیں اور ابھی تیاریوں کا آغاز نہیں ہوا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن پاکستان نے ہنگامی اجلاس بدھ کو طلب کیا۔ تاہم الیکشن کی باقاعدہ تیاریوں کے سلسلے کا آغاز ہونے میں مزید دو تین روز لگ سکتے ہیں۔ یوں اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو درکار وقت مزید کم ہوجائے گا۔
الیکشن کمیشن پاکستان تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعے کے بقول وقت کی کمی کے علاوہ نوے روز میں الیکشن کرانے میں الیکشن کمیشن کو دیگر کئی چینلجز بھی درپیش ہیں۔ ان میں ایک ایشو نئی ڈیجیٹل مردم شماری کا ہے۔ جو یکم مارچ سے شروع ہوچکی ہے اور ایک ماہ یعنی یکم اپریل تک مکمل ہوگی۔ تب تک نوے روز میں انتخابات کی مدت کے ستتر دن گزرچکے ہوں گے اور صرف تیرہ روز باقی ہوں گے۔ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ درپیش ہوگا۔
اس عمل میں بھی تقریباً ایک ماہ لگ سکتا ہے۔ یوں تب تک انتخابات کے لئے مقررہ نوے روز سے معاملہ کہیں آگے پہنچ چکا ہوگا۔ اگر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن پرانی حلقہ بندیوں پر کرا دیئے جاتے ہیں تو قومی اسمبلی اور دیگر دو صوبائی اسمبلیوں سندھ اور بلوچستان کے الیکشن نئی مردم شماری پر ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں ایک نیا ایشو کھڑا ہوجائے گا۔ کیونکہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے نتیجے میں نئے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ اور مزید کئی نئے انتخابی حلقے تشکیل پانے ہیں۔ اس صورت میں نئے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اپنے حق رائے دہی سے محروم ہوجائے گی۔
نوے روز میں انتخابات کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک اور بڑا مسئلہ فنڈز کی عدم دستیابی کا ہے۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد کے بقول دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر تقریباً پچیس ارب روپے خرچ ہوں گے۔ بعض نے یہ تخمینہ ساٹھ ارب روپے لگایا ہے۔ جبکہ بدترین معاشی بحران کا شکار حکومت کے پاس یہ اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں۔
وزارت داخلہ اس مجبوری کو بیان بھی کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ کی طے کردہ ڈیڈ لائن پر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے کے لئے ضروری ہے کہ وزارت خزانہ فوری طور پر الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز جاری کرے جو موجودہ صورتحال میں ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن پاکستان کو عملے کی عدم دستیابی کا بھی سامنا ہے۔ آر اوز سمیت دیگر انتخابی عملہ لوئر عدلیہ نے فراہم کرنا ہے۔ تاہم ادھر سے الیکشن کمیشن پاکستان کو جواب مل چکا ہے۔
اسی طرح الیکشن میں سیکورٹی فراہم کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست وزارت دفاع مسترد کر چکی ہے۔ اس مایوسی کا اظہار چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ میں اپنی طلبی کے موقع پر بھی کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا ’’پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے سلسلے میں سیکورٹی فراہم کرنے کے لئے وزارت دفاع سے کی گئی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اسی طرح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران (آر اوز) کے لئے کہا تو ادھر سے بھی جواب انکار میں ملا۔ وزارت خزانہ نے بھی فنڈز کے حوالے سے حوصلہ افزا جواب نہیں دیا‘‘۔
اس سارے تناظر میں یہ امکان معدوم دکھائی دے رہا ہے کہ الیکشن کمیشن مقررہ نوے روز میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے میں کامیاب ہوجائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگرچہ الیکشن کمیشن نے گورنر اور صدر سے دوبارہ مشاورتی عمل شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن دیکھنا ہے کہ بیان کردہ چیلنجز کی موجودگی میں الیکشن کمیشن نوے روز کے اندر الیکشن کرانے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔
بدھ کے روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت ہونے والے کمیشن کے ہنگامی اجلاس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں مشاورتی عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر صدر مملکت عارف علوی اور گورنر خیبرپختونخوا کے ساتھ مشاورت اور وفاقی حکومت کو خط لکھنے پر اتفاق رائے ہوا۔
الیکشن کمیشن پاکستان آج جمعرات کو بلائے گئے ایک اور اجلاس میں الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ کرے گا۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن پاکستان نے سیاسی پارٹیوں کو بھی ہدایت کر دی ہے کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عام انتخابات کے سلسلے میں انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے لئے درخواستیں جمع کرادیں۔ یہ درخواستیں آٹھ مارچ تک جمع کرائی جا سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات ہونے کی صورت میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اگلے پانچ برس کے لئے حکومتیں بنیں گی۔ لہٰذا آگے چل کر یہ آئینی سوال بھی کھڑا ہو سکتا ہے کہ اگست میں اپنی مدت پوری کرنے والی قومی اسمبلی کے الیکشن جب اکتوبر میں منعقد ہوں گے تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتیں نہیں ہوں گی۔ چنانچہ ان دونوں صوبوں میں قومی اسمبلی کے شفاف الیکشن کے انعقاد کو کیسے ممکن بنایا جاسکے گا۔