صرف 22 افغانوں کو برطانیہ نے قبول کیا ہے۔فائل فوٹو
صرف 22 افغانوں کو برطانیہ نے قبول کیا ہے۔فائل فوٹو

گوروں کی مدد کرنے والے’’ افغان رُل‘‘ گئے

محمد علی :
گوروں کی مدد کرنے والے افغان رُل گئے۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے اب تک صرف 22 افغانوں کو برطانیہ میں آباد کیا گیا ہے۔ ان کی بھی سخت اسکروٹنی کی گئی ہے حالانکہ ان میں 8 بچے شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسکیم کے تحت 24 ہزار 500 افغانوں کو برطانیہ میں بسانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جو ایک لالی پاپ ثابت ہوا ہے۔ افغانستان کے اسکالرز، صحافیوں اور ججوں سمیت ذہین ترین افراد کو بھی برطانیہ کی شہریت کا اہل نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر افغان باشندے پاکستان اور ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

جبکہ برطانوی حکومت اپنی ہی متعارف کردہ ’’افغان سٹیزن ری سیٹلمنٹ اسکیم‘‘ کے معاملے پر تاخیری حربوں پر اتر آئی ہے اور اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں دی جا رہی۔ اس صورتحال میں برطانوی افواج کے انخلا میں مدد کرنے والے افغان ذمہ داران اور ان کے اہلخانہ شدید اضطراب میں ہیں۔ دوسری جانب غیر قانونی راستے یعنی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچنے والے افغان شہریوں کی تعداد گزشتہ سال بڑھ کر 8 ہزار 633 ہو گئی۔ جو 2021ء کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔

حالیہ مہینوں میں افغانوں نے خطرناک، بے قاعدہ کراسنگ کرنے والے اہم قومیت کے طور پر البانینز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس سے اٹلی اور لیبیا طرز کے مزید سانحات کے رونما ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ جس میں کچھ ہی عرصے میں درجنوں افراد غرقاب ہوئے ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کی ایک خیراتی تنظیم نے کہا کہ برطانوی فورسز کے انخلا میں معاونت کرنے والے مایوسی کا شکار ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر کب تک وہ بے یار و مددگار مختلف خطوں میں اپنی زندگی کے دن کاٹیں گے۔ آزادی صحافت کے حق میں کام کرنے والی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغان شہری بالخصوص صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں برطانیہ ناکام ہو رہا ہے۔

گارجین کے مطابق افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کرنے میں تاخیر کا مطلب یورپی اتحادی ممالک بشمول جرمنی اور فرانس کا لندن کی پالیسی سے اتفاق نہ کرنا ہے۔ یاد رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اگست 2021ء میں سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے افغان ری لوکیشن اینڈ اسسٹنس پالیسی (اے آر اے پی) کے نام سے ایک اسکیم متعارف کرائی تھی۔ جس کا مقصد افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کو برطانیہ میں آباد کرنا تھا۔

صحافتی تنظیموں کی جانب سے یہ انتباہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے۔ جب برطانوی حکومت کو افغان شہریوں کی دوبارہ آبادکاری کی اسکیم کے اگلے مرحلے کی تفصیلات جاری کرنا ہیں۔ صحافتی تنظیمیوں کا کہنا ہے کہ متعدد افغان شہریوں نے ان سے مدد کی اپیل کی ہے۔ جبکہ اس سے قبل برطانیہ کے اتحادی یورپی ممالک متعدد افغان صحافیوں کو پناہ دے چکے ہیں۔

صحافتی گروپس انڈیکس سینسر شپ، نیشنل یونین آف جرنلسٹس، پی ای این انٹرنیشنل اور انگلش پی ای این نے برطانوی سیکریٹری داخلہ سویلا بریورمین سے افغان شہریوں کی آباد کاری میں مدد کی درخواست کی ہے۔ انڈیکس آن سنسر شپ کے ایڈیٹر مارٹن برائٹ کا کہنا ہے کہ افغانستان، پاکستان یا ایران میں پناہ لینے والے افغان صحافیوں کو برطانوی حکومت کہ جانب سے کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ جبکہ وہ اے سی آر ایس اسکیم کے تحت برطانیہ میں آباد ہونے کے اہل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے سی آر ایس اسکیم میں پیش رفت کے حوالے سے واضح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بھی افغان شہریوں کو کسی قسم کی کوئی مدد بھی فراہم نہیں کی جا سکتی ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اکثر افغان صحافی مغربی میڈیا تنظیموں کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس کے باوجود برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے کام کرنے والے آٹھ صحافیوں کا برطانوی ویزہ مسترد ہو گیا تھا۔ تاہم برطانوی محکمہ داخلہ کے خلاف قانونی کارروائی کے بعد ان صحافیوں کی ویزہ ایپلی کیشن پر دوبارہ غور کیا گیا۔

ادھر برطانوی حکومت کے ترجمان کے مطابق اسکیم کے تحت 24 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کیا گیا ہے۔ جس میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان، اسکالر، صحافی، ججز اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم اس دعوے کی خود برطانوی میڈیا نے تردید کر دی ہے اور بتایا ہے کہ صرف 22 افغانوں کو برطانیہ نے قبول کیا ہے۔