نئے آئی جی کی تعیناتی کے بعد صوبائی حکومت نے گرینڈ آپریشن کا اعلان کردیا، فائل فوٹو
 نئے آئی جی کی تعیناتی کے بعد صوبائی حکومت نے گرینڈ آپریشن کا اعلان کردیا، فائل فوٹو

کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی متوازی حکومت

میر عابد بھٹو :
سندھ پنجاب سرحدی کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں نے عملاً اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ جدید اور بھاری ہتھیاروں سے لیس ڈاکوئوں کے سامنے انتظامیہ اور پولیس بے بس ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ملک بھر سے لوگوں کو اغوا کرکے کچے کے علاقے میں یرغمال بنانے کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ اغوا کی ان وارداتوں میں خواتین کو بطور ’’ہنی ٹریپ‘‘ استعمال کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرکے ڈاکوئوں نے اپنے نیٹ ورک کو جدید خطوط پر استوار کرلیا ہے۔

کچے کا علاقہ کسے کہتے ہیں؟

دریا کے پانی کو شہروں میں جانے سے روکنے کے لئے دریا کے دونوں اطراف مٹی کے بند باندھے گئے ہیں۔ ان مٹی کے بندوں کے درمیانی علاقے کو ’’کچا‘‘ کہا جاتا ہے۔ سندھ سے لے کر پنجاب تک ان بندوں کے درمیان لاکھوں ایکڑ کی زمین ہے۔ جہاں کئی مقامات پر گھنے جنگلات اور دشوار گزار راستے ہیں۔ لہٰذا یہ ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہیں یا کمین گاہیں ہیں۔ جہاں وہ تاوان کے لئے اغوا کئے گئے افراد کو رکھتے ہیں۔ کچے کے علاقے میں زیادہ تر کانٹے دار کیکر کے درختوں کے گھنے جنگلات ہیں۔ جن میں آدمی چھپ جائے تو نظر نہیں آتا۔ بنیادی طور پر کچے کا علاقہ پانی اور جنگلات سے گھرا ایریا ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ڈھولچیوں سمیت چودہ مغویوں کی بازیابی کے لئے ڈہرکی پولیس چار مارچ کو کچے کے علاقے میں پہنچی تھی۔ تاہم پولیس کو اپنے مشن میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اب تک صرف گھوٹکی کے کچے کے علاقے سے ڈیل کے ذریعے ہی تین مغوی بازیاب کرائے جاسکے ہیں۔ جبکہ چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے تمام ڈھولچی تاحال ڈاکوئوں کی قید میں ہیں۔

پچھلی کئی دہائیوں سے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی اجارہ داری ہے۔ اس عرصے کے دوران درجنوں بار آپریشن کئے گئے۔ لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ مغویوں کی بازیابی کے لئے اس وقت کچے کے علاقے میں ایک اور آپریشن کیا جارہا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے نیٹ ورک اور کارروائیوں کے ہولناک انکشافات بیان کرتے چلیں کہ کس طرح ان کرمنلز نے کچے کے علاقے میں اپنی الگ ریاست قائم کر رکھی ہے۔

کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کا مضبوط نیٹ ورک قائم ہے۔ جس کا نوٹس ہائی کورٹ کا سکھر بنچ بھی لے چکا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں ڈاکو اب کارروائیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ڈاکوئوں نے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں پر فوکس رکھا ہوا ہے کیونکہ یہ پیسے کے حصول کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ مغویوں کے اہل خانہ سے ان کے پیاروں کی رہائی کے عوض بھاری تاوان مانگا جاتا ہے۔ تاوان کی رقم کی وصولی کو یقینی بنانے کے لئے مغویوں پر تشدد کی ویڈیوز اہل خانہ کو بھیجی جاتی ہیں۔

’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق اغوا کی وارداتوں کا نیٹ ورک ملک بھر میں پھیلانے کے لئے ڈاکوئوں نے دو طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک مہنگی گاڑیوں کی انتہائی سستے داموں فروخت کا ہے۔ لوگوں کو جال میں پھنسانے کے لیے نئے ماڈل کی قیمتی گاڑیوں کے انتہائی کم قیمت پر فروخت کے لئے اشتہار دیئے جاتے ہیں۔ ان اشتہاروں کے جھانسے میں آکر جب کوئی رقم کے ساتھ مطلوبہ مقام پر پہنچتا ہے تو نہ صرف اس سے پیسے چھین لئے جاتے ہیں۔ بلکہ گاڑیوں کے ایجنٹ کا روپ دھارنے والے ڈاکو انہیں اغوا کرکے کچے کے علاقے میں لے جاتے ہیں اور پھر نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔

ان مغویوں کی رہائی کے لیے ان کے اہل خانہ سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کیا جاتا ہے اور رہائی کے بدلے میں بھاری رقوم مانگی جاتی ہیں۔ انکار پر مغویوں پر انسانیت سوز مظالم کی ویڈیوز اہل خانہ کو بھیجی جاتی ہیں۔ اس نوعیت کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل کی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیشتر کیسوں میں اہل خانہ تاوان ادا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی مغوی کے گھر والے تاوان ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔

ملک بھر سے لوگوں کو اغوا کرنے کے لئے دوسرا طریقہ ’’ہنی ٹریپ‘‘ کا ہے۔ سب سے زیادہ ’’شکار‘‘ اسی طریقے سے کئے جارہے ہیں۔ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں نے مختلف قومیتوں کی لڑکیوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ تاکہ ہر زبان بولنے والے شہری کو جال میں پھنسانے میں آسانی رہے۔ یہ لڑکیاں اپنے ’’شکار‘‘ سے موبائل فون اور زیادہ تر واٹس ایپ یا فیس بک کے ذریعے رابطہ کرتی ہیں۔ ابتدائی بات چیت کے بعد جب ’’دوستی‘‘ کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے اور بات شادی تک جا پہنچتی ہے تو پھر یہ لڑکیاں شکار کو ملاقات کے لئے بلاتی ہیں اور ’’سرکار کچے دھاگے‘‘ سے بندھے چلے آتے ہیں۔ ’’ہنی ٹریپ‘‘ میں آنے والا کوئی فرد جب لڑکی کے بتائے گئے مقام پر پہنچتا ہے تو اسے اغوا کرکے کچے کے علاقے میں پہنچادیا جاتا ہے۔

چند روز قبل سندھ کے کچے کے علاقے کے ڈاکوئوں نے پنجاب کے شہر چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈھولچی گروپ کے 9 افراد کو پرکشش معاوضے پر شادی کی تقریب میں پرفارمنس کا جھانسہ دے کر اوباڑو بلایا تھا۔

بعد ازاں انہیں اغوا کرکے کچے کے علاقے میں لے گئے۔ ان غریب ڈھولچیوں کے اہل خانہ سے بھی ڈاکوئوں نے کروڑوں روپے تاوان کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ڈھولچیوں کے علاوہ دیگر 5 افراد بھی مغویان بھی شامل ہیں۔ ان تمام چودہ مغویوں کو بازیاب کرانے کے لئے ہی گھوٹکی پولیس نے کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ لیکن تاحال قابل ذکر کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ محض تین افراد کی رہائی عمل میں آئی ہے۔ وہ بھی پولیس آپریشن نہیں بلکہ ڈیل کے ذریعے ان افراد کو بازیاب کرایا گیا۔ ان میں سے دو افراد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ جنہیں ’’ہنی ٹریپ‘‘ کے ذریعے گھیرا گیا تھا۔

نسوانی آواز کا سحر شیخوپورہ کے رہائشی محمد دلاور ولد دوست محمد اور اوکاڑہ کے رمضان ولد ولایت علی کو سندھ کھینچ لایا تھا۔ ایک کو اوباڑو اور دوسرے کو ماچھکہ سے اغوا کرکے کچے کے علاقے میں پہنچایا گیا۔ جبکہ بازیاب ہونے والے تیسرے مغوی صوبہ خیبرپختونخوا کے رہائشی فضل الرحمن ولد سردار خان پٹھان سستا ٹریلر خریدنے کے لئے آئے تھے اور اس جھانسے میں پھنس کر اغوا ہوگئے۔

پولیس کے بقول رائونتی تھانے کے ایس ایچ او عبدالشکور لاکھو نے ان تین مغویوں کو رہا کرانے کے لئے بھاری نفری کے ساتھ آپریشن کیا تھا۔ حسب روایت دعویٰ کیا گیا کہ ڈاکو، مغویوں کو ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کر رہے تھے کہ اطلاع ملنے پر پولیس پہنچ گئی اور ڈاکو مغویوں کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان مغویوں کی رہائی کے لئے ورثا نے بھاری تاوان ادا کیا اور یہ ڈیل پولیس نے ڈاکوئوں کے ساتھ پس پردہ بات چیت کے ذریعے کرائی۔

اسی نوعیت کی رہائی چند روز قبل بھی عمل میں آئی تھی۔ ڈاکوئوں نے ضلع جھنگ پنجاب کے رہائشی محمد حسین لغاری اور ظفر اقبال لغاری کو دو ماہ قبل یرغمال بنایا تھا۔ دونوں افراد سستی ہائی ایکس گاڑی خریدنے کے جھانسے میں اوباڑو پہنچے تھے۔ جہاں سے انہیں اغوا کرلیا گیا۔ ان کی رہائی کے حوالے سے بھی پولیس نے یہی کہانی دوہرائی کہ مغویوں کو ڈاکو ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کر رہے تھے کہ خفیہ اطلاع پر کارروائی کرکے مغویوں کو بازیاب کرالیا گیا۔

حیران کن امر ہے کہ اس نوعیت کی کارروائی کے دوران ڈاکو عموماً فرار ہوجاتے ہیں۔ اس نام نہاد مقابلے میں کوئی ڈاکو ہلاک یا زخمی بھی نہیں ہوتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی ناکامی کا ایک بڑا سبب پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی موجودگی بھی ہے۔ ایسے پولیس اہلکاروں کے ڈاکوئوں کے ساتھ خفیہ رابطے ہوتے ہیں۔ پیشگی اطلاع ملنے پر ڈاکو اپنے ٹھکانے تبدیل کرلیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آپریشن کامیاب نہیں ہوپاتے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ڈاکوئوں کی قید میں 9 ڈھولچیوں سمیت جو ایک درجن کے قریب لوگ ہیں۔ ان کی بازیابی کے لئے بھی ’’اندرونی ڈیل‘‘ جاری ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ رائونتی تھانے میں تعینات اکثر ایس ایچ اوز کے ڈاکوئوں کے ساتھ روابط ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل رائونتی تھانے کے ایس ایچ او غلام عباس سندرانی کو ڈاکوئوں کے ساتھ تعلقات پر برطرف کیا گیا تھا۔ غلام عباس سندرانی پر الزام تھا کہ ان کی مبینہ مدد سے شہریوں کو اغوا کیا جاتا تھا۔ اور بعد ازاں تاوان کی بھاری رقوم کی بندربانٹ ہوتی تھی۔

اس وقت ڈاکوئوں کی قید میں موجود 9 ڈھولچیوںمیں انصرف علی ولد عابد حسین، سہیل حیدر ولد عابد حسین، شفقت علی ولد بشیر احمد، محمد بلال ولد بشیر احمد، مشتاق احمد ولد ریاض حسین ، اسماعیل ولد طالب حسین، قمر عباس ولد محمد نواز، طیب رحمن ولد مراتب علی اور نعمان علی ولد اعجاز احمد شامل ہیں۔اس کے علاوہ اوباڑو کا ایک شہری اصغر کھنبڑو، خیبرپختونخوا کا ساٹھ سالہ تصور حسین، پنجاب کے علاقہ اوکاڑہ کا محنت کش رمضان علی، ضلع کرک کا فضل الرحمان اور ایک نامعلوم فرد بھی مغویوں میں شامل ہے۔

ڈاکوئوں نے مغوی رمضان علی اور ایک نامعلوم مغوی پر تشدد کی انسانیت سوز ویڈیو، خیبرپختونخوا کے مغوی تصور حسین کے نمبر سے رمضان کے ورثا کو بھیجی ہے۔ رمضان کے ورثا کا کہنا ہے ’’ہم غریب لوگ ہیں۔ رمضان لاہور کی سبزی منڈی میں مزدوری کرتا تھا۔ ڈاکوئوں نے تاوان میں ڈھائی کروڑ روپے اور آئی فون مانگ رکھا ہے‘‘۔ ورثا اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے مختلف ایس پی آفسز اور تھانوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔

ایک ماہ قبل مقامی شوگر مل کے ملازم اصغر میرانی کو ڈاکوئوں نے اغوا کیا تھا اور پچیس لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا۔ مغوی کے غریب ورثا تاوان کی رقم کا بندوبست نہ کرسکے تو ڈاکوئوں نے اصغر میرانی کو گولیاں مارکر زخمی کردیا اور بعد ازاں زخمی حالت میں پھینک کر فرار ہوگئے۔

کچے کے علاقے میں اب تک کئے جانے والے آپریشنز کی ناکامی کا ایک اور بڑا سبب ڈاکوئوں کا جدید اور بھاری ہتھیاروں سے لیس ہونا بھی ہے۔ اس کے مقابلے میں پولیس کے پاس محض رائفلیں ہیں اور وہ بھی اکثر ناکارہ ہوتی ہیں۔ جبکہ ڈاکوئوں کے پاس مارٹر اور راکٹ سمیت دیگر بھاری ہتھیار ہیں۔ دوسری طرف گھوٹکی پولیس کو ابھی تک ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے لئے جدید اسلحہ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

چار ماہ قبل بھی گھوٹکی پولیس نے کچے میں یرغمال بچوں کی بازیابی کے لئے آپریشن شروع کیا تھا۔ لیکن جدید اسلحہ نہ ہونے کے باعث ڈاکوئوں کے بڑے حملے میں ایک ڈی ایس پی عبدالمالک بھٹو، دو ایس ایچ او عبدالمالک کماگر، ایس ایچ او محمد ایوب لغاری اور دو پولیس اہلکارشہید ہوگئے تھے۔ ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو اعتراف کرچکے ہیں کہ ڈاکوئوں کے پاس جدید اسلحہ ہے۔ جبکہ پولیس کے پاس صرف رائفلیں ہیں، جن کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور مغوی خود پرکشش آفر پر کچے جاتے ہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

دوسری طرف سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بنچ میں امن و امان کے حوالے سے سماعت جاری ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس عبدالمبین لاکھو پر مشتمل دو رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

چند روز پہلے ہونے والی سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے کہا کہ ’’میری آئی جی شپ میں محکمہ پولیس تمام مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سندھ پولیس کو کچے کے علاقے میں اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائمز اور نارکوٹکس کیسز کا سامنا ہے۔ لاڑکانہ اور سکھر ریجن میں بہتر کارکردگی دکھانے والے افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔ میں نے اپنے ایس ایس پی دور میں گھوٹکی اور خیرپور میں امن و امان قائم کرکے دکھایا تھا۔ تاہم آر آر ایف کمانڈوز کی پلٹون ٹرانسفر کردی گئی جو لڑنے میں ماہر ہیں۔

دوسری جانب ایس ایس یو کا رول صرف وی وی آئی پی پروٹوکول اور عمارتوں کی حفاظت تک محدود ہے‘‘۔ اس موقع پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اغوا برائے تاوان ’’انڈسٹری‘‘ بن چکی ہے۔ سالانہ دو بلین کا تاوان وصول کیا جاتا ہے۔ یہ کیسے ختم ہوگا۔ یہاں ہر چیز صرف وی وی آئی پیز کے لئے ہے۔ عام آدمی کے لئے کچھ نہیں۔

اغوا کی وارداتوں میں تشویشناک اضافہ- سستی گاڑیوں کی فروخت کا جھانسہ اور خواتین کی مدد سے شہریوں کو جال میں پھنسایا جاتا ہے- مارٹر اور راکٹ سمیت بھاری ہتھیاروں سے لیس ڈاکو سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں-