ارشاد کھوکھر :
حکومت کی جانب سے آٹا مستقل مہنگا ہونے کی بنیاد تو چھ ماہ قبل رکھی گئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ گندم کی نئی فصل آنے کے باوجود بھی رمضان المبارک کے مہینے میں عوام کو آٹا دگنی قیمت پر ملے گا۔
گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آنے کے باعث رمضان المبارک تک آٹے کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ تاہم آٹے کے نرخوں کا بحران برقرار رہے گا۔ جس کا سبب محکمہ خوراک کی کمیشن و خورد برد مافیا کے کرتوت اور چور فلور ملوں کی منافع خوری ہوگا تاہم محکمہ خوراک کی مافیا و چور فلور ملوں کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ حکومت سستے آٹے کے لئے رمضان پیکیج کا اعلان کرے تاکہ مذکورہ پیکیج کی مد میں کی جانے والی تمام تر سبسڈی کے اربوں روپے وہ ہڑپ کرلے۔ لیکن حکومت سندھ کے اعلیٰ حکام ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس مرتبہ رمضان پیکیج دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اگر سستے آٹے کے لئے رمضان پیکیج کی شروعات ہوئی تو پھر عوام کو آٹا دگنی قیمت سے بھی زیادہ نرخوں پر ملے گا۔ حکومت اگر عوام کو آٹے کی مد میں تھوڑا بہت بھی ریلیف دینا چاہتی ہے تو وہ اسی صورت ممکن ہے جب اوپن مارکیٹ میں آنے والی گندم پر کمیشن بٹورنے اور ذخیرہ اندوزوں کو ذخیرہ اندوزی سے روکنے کے لئے محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کا قلع قمع کیا جائے۔
رواں سیزن کے دوران آٹے کے نرخوں کا شدید بحران رہا ہے اور اس وقت بھی عوام کو فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹا 135 سے 140 روپے، میدہ فائن آٹا فی کلوگرام 145 سے 150 روپے اور پیور چکی آٹا 150 سے 155 روپے میں مل رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ سندھ کے محکمہ خوراک کا دعویٰ ہے کہ اس نے رواں سیزن کے دوران تقریباً 14 لاکھ ٹن (ایک کروڑ 40 لاکھ بوری گندم) رعایتی نرخوں پر فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو جاری کی۔ اس میں سے 5 لاکھ ٹن وفاقی حکومت سے لی گئی درآمدی گندم بھی شامل ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
رواں سیزن کے دوران حکومت سندھ نے محکمہ خوراک کو 14 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا ہدف دیا تھا۔ جس میں محکمہ خوراک بری طرح ناکام رہا۔ اور سرکاری ریکارڈ میں یہ ظاہر کیا گیا کہ 9 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ کیونکہ 9 لاکھ ٹن کے بجائے تقریباً 6 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی تھی۔ باقی تقریباً 3 لاکھ ٹن (30 لاکھ بوری گندم) کی فرضی خریداری ظاہر کرکے محکمہ خوراک کی کمیشن و خورد برد مافیا نے اربوں روپے خود ہڑپ کرلئے تھے۔ جبکہ ان ثبوتوں کو مٹانے کے لiے مافیا نے ملی بھگت سے گندم میں مٹی ملاکر اس کا وزن بڑھایا اور دیگر جعل سازی کے طریقوں سے یہ ظاہر کیا کہ وہ گندم بھی انہوں نے فلور ملز اور آٹا چکیوں کو جاری کردی ہے۔
اس طرح محکمہ خوراک کے ریکارڈ کے برعکس فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو رواں سیزن کے دوران 14 لاکھ ٹن گندم کے بجائے تقریباً 11 لاکھ ٹن گندم ملی۔ فلور ملوں کے نام پر جو گندم جاری ہوئی۔ اس میں مٹی وغیرہ بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو جو سرکاری گندم جاری کی جارہی تھی۔ اس میں فی بوری گندم پر تقریباً 1000 روپے کمیشن بھی بٹورا گیا۔ اس ساری ملی بھگت میں چور فلور ملز مالکان اور ان کے دیگر سرکردہ رہنما بھی شامل رہے ہیں۔ جس کے بدلے فلور ملوں کو من مانے نرخوں پر آٹا فروخت کرنے کی کھلی چھوٹ رہی۔
جہاں تک گزشتہ سیزن کی بات ہے تو اس دوران عوام کو فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹا اوسطاً 70 روپے کلو میں مل سکا۔ لیکن اس بار رمضان میں عوام کو دگنی قیمت پر آٹا خریدنا پڑے گا۔ کیونکہ حکومت سندھ نے آٹا مستقل مہنگا ہونے کی بنیاد چھ ماہ قبل اکتوبر کے مہینے میں ہی یہ اعلان کرکے رکھ دی تھی کہ آئندہ سیزن کے دوران فی من گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من یعنی فی کلوگرام 100 روپے ہوگی۔ جبکہ گزشتہ سیزن کے دوران فی من گندم کی امدادی قیمت 2 ہزار 200 روپے یعنی فی کلوگرام 55 روپے تھی۔ اس طرح فی کلوگرام گندم کی امدادی قیمت بھی 100 روپے ہو تو آٹے کے نرخ کیسے کم ہو سکتے ہیں۔
حکومت 100 روپے فی کلوگرام کے حساب سے کاشتکاروں سے جو گندم خریدے گی۔ وہ گندم محکمہ خوراک کو فی کلوگرام 130 روپے تک پڑے گی۔ کیونکہ جو گندم خریدی جاتی ہے۔ اس میں بوری (باردانہ) کے اخراجات، ٹرانسپورٹیشن، گندم کو فنگس اور کیڑوں سے محفوظ رکھنے کیلیے فیومیگیشن کے اخراجات کے ساتھ گندم خریداری کیلیے بینکوں سے لئے جانے والے قرضے پر بننے والی سود کی قیمت کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ جس کے باعث اس بات کا امکان ہے کہ نئے سیزن کے دوران حکومت سندھ جب بھی سرکاری گندم کا اجرا کرے گی تو اس کی قیمت اجرا تقریباً 11 ہزار روپے فی بوری یعنی فی کلوگرام 110 روپے تک ہوسکتے ہیں۔
جب گندم کی قیمت ہی 110 روپے ہو تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آٹے کے نرخ کتنے بڑھ جائیں گے۔ کیونکہ اب بجلی کے نرخوں اور پیٹرول ڈیزل کے نرخوں میں اضافے کے باعث ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے اخراجات بھی بڑھ جانے سے آٹے کی پسائی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔
اس وقت نہ صرف کراچی شہر بلکہ صوبے بھر میں آٹے کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کئی علاقوں میں آٹے کی بلیک مارکیٹنگ بھی جاری ہے۔ جس کا سبب یہ ہے کہ محکمہ خوراک کی جانب سے فرضی گندم کی خریداری کے باعث محکمہ خوراک کے پاس مطلوبہ گندم کی ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں اور کرپشن کی خاطر سیلاب کی آڑ میں ملی بھگت سے بڑھا چڑھاکر گندم ڈیمیج ظاہر کی جارہی ہے۔
جبکہ اس کے برعکس دسمبر 2022ء کو صوبائی وزیر خوراک مکیش کمار چاولہ سندھ اسمبلی کے فلور پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ سیلاب کے باعث تقریباً دو فیصد گندم یعنی صرف 18 ہزار ٹن (1 لاکھ 80 ہزار ) بوری گندم متاثر ہوئی ہے۔ جس میں جزوی طور پر متاثر ہونے والی گندم بھی شامل ہے۔ لیکن محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کے سرغنہ گریڈ 15 کے ملازم حسن علی مگسی اور محکمہ خوراک کے دیگر کرپٹ افسران نے صاف ستھری گندم خود بیچ کر اس کی جگہ گوداموں میں بیوپاریوں وغیرہ کی سیلاب میں خراب ہونے والی گندم انتہائی کم قیمت میں خرید کرکے رکھ دی ہے۔ جس کے باعث بھی محکمہ خوراک کے گندم کے ذخائر میں کمی ہوئی اور اب تقریباً ساڑھے 6 لاکھ بوری ڈیمیج گندم فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو لبرل پالیسی کے تحت اٹھانے کو کہا جارہا ہے۔
مذکورہ گندم کی جہاں تک بات ہے تو اس سے کسی بھی صورت میں آٹا تیار نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس میں ایسی گندم بھی شامل ہے جو جانوروں کے قابل بھی نہیں رہی۔ جبکہ مافیا کے کرتوتوں کے باعث گندم کی مذکورہ قلت بھی آٹے کے نرخوں میں اضافے کا باعث رہی ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اب اوپن مارکیٹ میں نئی فصل کی گندم آنا شروع ہوگئی ہے۔ جس کے باعث رمضان المبارک تک نئی فصل کی زیادہ گندم تیار ہوجانے کے باعث گندم کی طلب کا بحران مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ جس کے باعث آٹے کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کی جو صورتحال ہے۔ وہ رمضان المبارک تک ختم ہوجائے گی۔
تاہم جہاں تک آٹے کے نرخوں کا بحران ہے تو وہ ختم نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ بھی محکمہ خوراک کی کمیشن و خورد برد مافیا ہی ہے۔ کیونکہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کر کے آٹا مستقل مہنگا رہنے کی بنیاد تو رکھ دی تھی۔ لیکن اس کے مقابلے میں بھی آٹے کے نرخوں میں اضافے کا سبب کمیشن مافیا بنے گی۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ محکمہ خوراک کی مافیا اپنی گندم خریداری کا ہدف پورا کرنے کیلئے اوپن مارکیٹ میں آنے والی گندم پر کمیشن بٹورنے کیلئے گندم کی پکڑ دھکڑ شروع کردیتی ہے۔ جو بیوپاری گندم کے فی ٹرک پر بھاری رشوت دیتا ہے۔
صرف اسی کی گندم مارکیٹ میں جانے دی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سرکاری نرخوں کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں گندم کی نرخ بڑھ جانے کے باعث آٹے کے نرخوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال اب شروع ہوچکی ہے۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ اب مارکیٹ میں جو نئی فصل کی گندم آرہی ہے۔ اس کی فی سو کلوگرام گندم کی بوری کے سودے ساڑھے 11 ہزار روپے تک ہو رہے ہیں۔ اور اس کالے دھندے میں ذخیرہ اندوز بھی اپنا کام دکھاتے ہیں۔ محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کے سرغنہ گریڈ 15 کے ملازم حسن علی مگسی نے بیوپاریوں وغیرہ کا الگ نیٹ ورک بنایا ہے۔ جن کی ملی بھگت سے گندم ذخیرہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ کمیشن مافیا کی اوپن مارکیٹ میں آنے والی گندم پر اگر کمیشن خوری بند ہوجائے تو اس سے آٹے کے نرخوں میں کمی ہوسکتی ہے۔ لیکن ماضی کا جو ریکارڈ رہا ہے۔ اس کے مطابق ایسا ممکن نظر نہیں آرہا۔
جہاں تک رمضان المبارک کی بات ہے تو ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ عوام کو اس بابرکت مہینے میں رمضان پیکیج کے تحت سستا آٹا فراہم کرنے کیلئے فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو انتہائی رعایتی نرخوں پر گندم جاری ہوتی تھی۔ لیکن اس کا فائدہ عوام کے بجائے چور، غیر فعال فلور ملز اور محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کو ہوتا رہا ہے۔ اور عوام کو اس سے 10 فیصد بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ساری سبسڈی کمیشن مافیا اور فلور مل مافیا خود ہڑپ کرجاتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ کے اعلیٰ حکام آٹے کی مد میں رمضان پیکیج دینے کا کوئی ارادہ اس لئے بھی نہیں رکھتے کہ اب گندم کی خریداری شروع ہوگئی ہے۔ اصولاً جب تک گندم کی خریداری کا عمل جاری رہتا ہے۔ تب تک سرکاری گندم کا اجرا شروع نہیں ہو سکتا۔ جو پالیسی کے خلاف ہے۔
اگر ایسا کیا گیا تو اس سے عوام کے بجائے مافیا کو فائدہ پہنچے گا۔ جو ایک بار پھر فلور مل مالکان سے ملی بھگت کرکے فرضی گندم کی خریداری کے ثبوت مٹانے کے لیے یہ ظاہر کریں گے کہ یہ گندم انہوں نے فلور ملوں کو جاری کردی ہے۔ جہاں تک عوام کو ریلیف دینے کی بات ہے۔ تو اگر حکومت سندھ عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اس کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے تحت جن مستحقین کو وظائف ملتے ہیں۔ انہیں رمضان پیکیج کی مد میں اپنے حصے کی رقم بڑھاکر دی جائے۔ تاہم محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا اور چور فلور ملوں کی اب بھی بڑی خواہش ہے کہ حکومت سستے آٹے کی آڑ میں رمضان پیکیج کا اعلان کرے۔ تاکہ انہیں اس بابرکت مہینے میں بھی زیادہ سے زیادہ منافع خوری کرنے اور کمیشن بٹورنے کا موقع مل سکے۔