لاہور ( نواز طاہر /نمائندہ امت) پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور پولیس میں تصادم کے دوران جاں بحق ہونے والے پی ٹی آئی کارکن احمد بلال ظلِ شاہ کی ہلاکت کی گتھی تاحال سلجھائی نہیں جاسکی جبکہ پولیس نے اس ضمن میں ہفتے کو حتمی طور پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنا ہے ۔ اسی دوران ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شورش زدہ علاقے میں لگے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے اور کچھ شواہد بھی جمع کیے گئے ہیں اور متوقی کارکن کو اسپتال لانے کیلئے استعمال ہونے والے ڈالے کا بھی پتہ چلالیاگیا لیکن اس راز میں ہی رکھا جا رہا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق ابھی تک اس کی ہلاکت معمہ بنی ہوئی ہے ، نہ تو پوری طرح سے اس کے ٹھوس شواہد سے حادثہ کی تصدیق ہوسکی ہے اور نہ ہی یہ واضح ہورہا ہے کہ گرفتاری کے بعد وہ ڈالے میں کس طرح سے اسپتال تک پہنچا ؟ اسلام پورہ سے زمان پارک تک ایک محلے دار صحافی کی موٹر سائیکل پر لفٹ لیکر پہنچنے والے ظل، شاہ نے پولیس کے خوف سے نہ تو عمران خان کی تصویروالی شرٹ اتاری اور نہ ہی ڈنڈا پھینکا تھا ۔ اس حوالے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق علی بلال المعروف ظلِ شاہ نیادی طور پراپنے ہی جنون اور خیالات کا مالک تھا جس کی وجہ سے اسے سر پھرا اورکچھ لوگ پاگل بھی کہتے تھے لیکن درحقیت وہ سادہ مزاج اور عمران خان کا خاص دیوانہ تھا ،اس کے علاوہ اداکار شان کے ایک فلم میںظلِ شاہ ‘ کے کردار سے متاثر تھا۔ عمران خان کے زمان پارک میں قیام کے دوران وہ زیادہ وقت وہپیں گذارتا تھااور وہاں ڈیوٹی دینے والے میڈیا کارکنوں کے ساتھ عمرامن خان کے حوالے سے ’دل لگی ‘کرتاتھا ہر کسی سے یہی کہتاتھا کہ اس کا انٹرویو نشر کیا جائے ، میں خان کا دیوانہ ، مجاہد اور کارکن ہوں گا ، میری زندگی اسی پر قربان اور پھر اپنا انٹرویو نشر ہونے کی آس پوری ہونے سے پہلے آٹھ مارچ کی شام یہ خواہش دل میں لئے ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگیا ۔ آٹھ مارچ کو جب وہ گھر سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک ڈانڈا بھی تھا ، اسے راستے میں پولیس کے ہٹھے چڑھنے سے بچنے کیلئے یہ ڈنڈا پھینکنے کیلئے کہا گیا تواس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ ایک خاتون ورکر کی امانت ہے میں اسے ہی دوں گا، پولیس کے ڈر سے پھینکوں گا نہیں اور اس نے نہیں پھینکا،مال روڈ پر موٹر سائیکل سے اتر کر وہ زمان پارک پہنچا اور پھر دیگر کارکنوں کے ساتھ نعرہ بازی میں شامل ہوگیا ۔ علی بلال المعروف ظلِ شاہ کو پولیس کے ساتھ تصادم کے بعد گرفتار ہوتے کئی لوگوں نے دیکھا اور وہ پولیس کی ’قیدی وین ‘ تک درست ھالت میں گفتگو کرتا رہا ۔ پولیس کی یہ قیدی وین مال روڈ پر نہر کے قریب ہی کھڑی تھی لیکن چار سے سوا چار بجے کے قریب جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس کودو طرفہ اٹیک سے پسپا کردیا اور نہر پرکاوٹوں کے طور پر کھڑے کنٹینرز بھی قبضے میں لے لئے تو اس وقت بھی یہ وین وہیں پر موجود تھی ، اسیہ جگہ سے پولیس کی متعددگاڑیاں کارکنوں کے پتھراؤ سے بچنے کیلئے بھاگتی نظر آئیں لیکن ان گاڑیوں کے عقبی حصوں پر کوئی پولیس اہلکادکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ اسوقت ظلِ شاہ کسی کو دکھائی نہیں دیا جبکہ نصف گھنتے کے بعد پولیس نے کارکنوں کو پھر سے پسپا کرکے نہر کے پر اپنی پوزیشن مستحکم کرلی تھی لیکن سوا سات بجے اطلاع آئی کے علی بلال عرف ظلِ شاہ کی لاش اسپتال میں لائی گئی ہے ۔ یہ میت ایک ڈالے میں لائی گئی اور لانے والے موت کی تصدیق ہونے پر خاموشی سے وہاں سے نکل گئے تھے ۔ پنجاب کی نگران حکومت کی جانب سے نگران حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ موت روڈ ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ہوئی ہے ، اس کے ساتھ ہی ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہوا جس میں میاں محمود الرشید جیسے کچھ رہنما اسپتال کے بیڈ پر ظل شاہ کے چہرے کو ڈھانپتے ہوئے روڈ ایکسڈنٹ کا لفظ استعمال کرتے سنے گئے جبکہ اس سے پہلے ظلِ شاہ کی گرفتاری کےویڈیو کلپ بھی وائرل ہوچکے تھے جن میں پولیس اہلکار تشدد اور گالی گلوچ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پولیس کے ذرائع اس وقت تک یہ تصدیق اور وضاحت نہیں کررہے کہ گرفتار ظلِ شاہ کو سڑک پر حادثہ کیسے پیش آیا جبکہ وہ پولیس کی وین میں تھا ؟ تاہم ایک پولیس فسر کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر ظلِ شاہ اسوقت پولیس وین سے نکل کر بھاگا جب پولیس پسپا اور کارکن غالب تھے اور جب وہ بھاگا تو اس کے سر پر لگنے والی چوٹوں نے اسے ادھ موا ہودیا جو ہوسکتا ہے کہ حادثے کی وجہ بنا ہو ؟ کیونکہ اس کی گرفتاری اور موت کے وقت میں کم از کم چار گھنٹے کا وقفہ ہے ، اگر سر میں لگنے والی ضربات اتنی ہی شدید تھیں تو تو وہ وین میں دوسروں سے گفتگو نہ کرپاتا ۔ جب حادثہ ہوا تو موقع پر موجود جو گاڑی دستیان بھی اسی میں ڈال کر اسپتال لایا گیا لیکن اسے لانے والے موقع سے چلے کیوں گئے ، ؟ اس سوال جواب تاحال سامنے نہیں آرہا ۔ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے تمام سی سی ٹی وی فوٹیج کا معانہ کیا ہے اور کچھ ٹھوس شواہد تلاش کرلئے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کیا جارہا کہ ٹھوس شواہد اس کی کن حالات مین موت کے حق میں ہیں جبکہ پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق موت کی وجہ تشدد ہے ۔ حکومتی کمیٹی آج ہفتے کو تحقیقات کیلئے دیے گئےوقت کے اختتام پر حقائق سامنے لاسکتی ہے اور اسی دوران نہ تو پولیس اور نہ ہی پی ٹی آئی کی طرف سے ٹھوس شواہد کے ساتھ بات کی جارہی ہے البتہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے دعوے کی نفی ہونے کے تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ دریں اثنا ظلِ شاہ کے والد لیاقت نے پی ٹی آئی کے اس دعوے کی نفی کردی ہے کہ بیٹے کو پولیس تشدد سے مارنے کے بعد باپ کو پولیس نے اغواءکرلیا ہے ، لیاقت کے مطابق اسے کسی نے اغواءنہیں کیا ، اس سے جو درخواست لکھوائی گئی وہ انتہائی صدمے کی حالت میں لکھوائی گئی ، میں نے سی سی پی اور سمیت کسیپولیسافسر کو موقع پر نہیں دیکھا ، میں تو موقع پر موجود نہپیں تھا ، مجھ سے جو کہا گیا میں نے صدمے کی حالت مین لکھ دیا ، میں نے اللہ کو جان دینی ہے ، مجھے صرف انصاف چاہئے میں اپنے بیٹے کے قاتل کو دیکھنا چاہتا ہوں بھلے بعد میں خود معاف ہی کیون نہ کردوں لیکن میں دیکھنا چاہتا ت ہوں کہ میرے بھولے بیٹے کی موت کا ذمہ دار کون ہے بجلے وہ وردی میں ہے یا بغیر وردی کے ۔