وزیر اعظم شہباز شریف ، نواز شریف سے ملاقات کیلیے حسن نواز کے دفتر پہنچے ۔فائل فوٹو
وزیر اعظم شہباز شریف ، نواز شریف سے ملاقات کیلیے حسن نواز کے دفتر پہنچے ۔فائل فوٹو

نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ ہو گیا؟ سجاد عباسی

مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ایک بارپھر خبریں گرم ہیں۔ بعض حلقے یہ دعوی کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ نواز شریف اگلے دو ہفتوں کے دوران یا رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں وطن واپس آ سکتے ہیں تاہم لندن میں موجود میاں نواز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی قائد اگرچہ اپنے معتمد ساتھیوں سمیت تمام متعلقہ حلقوں سے اپنی وطن واپسی کے حوالے سے مشاورت اور فیڈ بیک لے رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف وطن واپسی کے لیے بے تاب ہیں، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنی جماعت کی حکومت اور سگے بھائی کے وزیر اعظم ہونے کے باوجود انہیں وطن واپسی کے لیے وہ "سازگار ماحول” دکھائی نہیں دے رہا ،جس کے انتظار میں انہوں نے دو برس سے زائد کا عرصہ برطانیہ میں گزار دیا۔

 

یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ نواز شریف ،عمران خان کی غیر مقبول ترین حکومت کو گرا کراقتدار میں آنے کے سخت مخالف تھے، تاہم اگلے کئی برسوں تک اقتدارکے منظرنامے سے آؤٹ ہونے کے شدید خطرات ، اور شہباز شریف کے ہم خیال لیگی قائدین کے اصرار کے سامنے انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔نواز شریف کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے کیے جانے والے سخت فیصلوں کے اثرات چھ آٹھ ماہ میں کم ہوکر کسی حد تک سیاسی ثمرات میں تبدیل ہو چکے ہوں گے، پھر راوی چین ہی چین لکھےگا، سرزمین وطن لیگی قائد کے استقبال کے لیے بے تاب اور عوام دیدہ و دل فرش راہ ہوں گے ۔ بقول فیض
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے ۔۔۔
کہ معیشت کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگانے کے لیے ناخدا بن کر آنے والے اسحاق ڈار کے چپّو بھی الٹی سمت چل پڑے۔ نتیجتا” مہنگائی آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی ،ڈالر کی اڑان بے قابو ہوگئی اور روپیہ مسلسل پاتال کی جانب محو سفر ہے جسے سرکاری کنٹرول  کے تکلف سے آزاد کر کے مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، مگر آئی ایم کی دیوی ہر آنے والی صبح نئی بھینٹ مانگتی ہے ۔ ان سارے عوامل نے عمران خان کی سیاست کے تن مردہ میں جان ڈال دی اور ان کی مقبولیت کے لئے مہمیز کا کام کیا۔ رہی سہی کسر جہازی سائز شہباز کابینہ کی بے عملی اور زیرو ڈیلیوری نے پوری کردی اور چھ ماہ میں "سب کچھ ” ٹھیک کر لینے کے ان کے دعوے خود ان کا منہ چڑانے لگے۔

 

 نیا عہدہ ملنے کے بعد مریم نواز پارٹی میں دوسری طاقتور شخصیت بن چکی ہیں-فائل فوٹو
نیا عہدہ ملنے کے بعد مریم نواز پارٹی میں دوسری طاقتور شخصیت بن چکی ہیں-فائل فوٹو

اس صورت حال کے تناظر میں نواز شریف کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حالات کی بہتری کا تو بظاہر کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ، تو کیا وہ ان کے مزید بگڑنے کا انتظار کریں؟ اسی کشمکش سے نکلنے اور کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے کے لئے انہوں نے وطن واپسی کے حوالے سے مشاورت تیز کر دی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں طویل قیام کے حوالے سے جہاں نواز شریف کو اپنی سب سے بڑی حریف جماعت پی ٹی آئی کی جارحانہ تنقید کا سامنا ہے، وہاں خود اپنی جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں کی سرگوشیاں بھی بلند آہنگ تبصروں میں تبدیل ہو رہی ہیں جن کا خیال ہے کہ شہباز حکومت کے قیام کے بعد ابتدائی چند مہینوں میں ہی میاں نواز شریف کو وطن واپس آ جانا چاہیے تھا۔اس خیال کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر میاں نواز شریف سیاسی میدان میں موجود ہوتے تو شاید عمران خان کی مقبولیت کاگراف اس قدر بلند نہ ہوتا جو آج مسلم لیگ نون کے لیے بالخصوص پنجاب میں ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے جو کبھی اس جماعت کی سیاسی طاقت کا سب سے بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔الیکشن سے پہلو تہی کی سو تاویلیں بیان کی جائیں مگر ان سب پر بھاری شکست کا خوف ہے جو نوشتہ دیوار ہے ، لہٰذا نواز شریف کی وطن وپسی کے حامیوں کا خیال ہے کہ وقت مٹھی میں ریت کی طرح نکلا جا رہا ہے، اگر اس معاملے میں مزید دیر کی گئی تو پھر ” بہت دیر ” ہو جائے گی۔

عمران خان کو اضافی سیکیورٹی

اگرچہ مسلم لیگ نون کے اندر بھی ایک خاصی بڑی تعداد ایسے رہنماؤں کی موجود ہے، جو فی الوقت لیگی قائد کی وطن واپسی کے حق میں نہیں ہیں، تاہم اس رائے یا تجویز کے حق میں ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے، سوائے اس کے کہ میاں صاحب کو سوچ سمجھ کر وطن واپسی کا فیصلہ کرنا چاہیے، کچھ ایسی ہی رائے گزشتہ ہفتے لیگی قیادت سے قربت رکھنے والے ایک بزرگ کالم نویس نے اپنی تحریر میں دی ہے۔ اگرچہ فی الوقت عمران خان کو گرفتاری کے خوف اور سکیورٹی خدشات نے زمان پارک کے درودیوار تک محدود کر رکھا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مریم نواز پنجاب میں تنظیم سازی کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم بھی چلا رہی ہیں اور بڑی حد تک انہوں نے اپنے والد کے واپسی کے لئے ماحول بنانے کی کوشش کی ہے، مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کہ موجودہ بدترین  معاشی صورتحال میں میاں نواز شریف مہنگائی کے ستائے ہوئے چیختے چلاتے عوام کو کس قسم کا ریلیف دلانے کے لیے اور کس سیاسی نعرے کے ساتھ  میدان میں اتریں گے؟ ان کی وطن واپسی سے نواز لیگ کی ڈگمگاتی سیاسی ناؤ کو سہارا تو ملے گا، مگر اس کشتی کو ایوان اقتدار کے ساحل پر لنگر انداز کرنے کے لیے بھنور در بھنور سفر کرنا ہوگا۔اس کا انحصار اس بات پر بھی ہو گا کہ نئی سیاسی صف بندیوں کی صورت میں آنے والے وقت میں سیاسی منظر نامہ کیا شکل اختیار کرتا ہے۔ الیکشن ( ہونے کی صورت میں ) سے پہلے یا فورا” بعد موجودہ حکومت کا کون سا اتحادی کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ یہ سارے سوال اہم ہیں۔ مگر ان تمام خدشات اور اندیشوں کے باوجودخواہی ناخواہی نواز شریف کو وطن واپسی کا فیصلہ کرنا ہو گا،باوجود اس کے کہ یہ واپسی چند ہفتوں میں ہو یا چند مہینوں میں ،حالات میں کوئی جوہری تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔سیاست کی بساط پرشطرنج کی چال مقررہ وقت پرچلنا ہوتی ہے،ورنہ شہ مات مقدر ہوتی ہے۔ 

کہا ہم چین کو جائیں، کہا تم چین کو جاؤ
کہا جاپان کا ڈر ہے، کہا جاپان تو ہوگا
کہا کابل چلے جائیں، کہا کابل چلے جاؤ
کہا افغان کا ڈر ہے، کہا افغان تو ہوگا
کہاہم اونٹ پربیٹھیں،کہاتم اونٹ پربیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا
ہری چند اختر