امت رپورٹ :
لندن ہائی کورٹ میں قریباً ایک کروڑ پائونڈ کا کیس ہارنے کے بعد الطاف حسین پر اب تک ان تمام جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اور چند برس پہلے دو قیمتی پراپرٹیز کی فروخت سے حاصل ہونے والی بھاری رقم ادا کرنے کی تلوار بھی لٹک گئی ہے۔ کیس کا دوسرا مرحلہ ہارنے کی صورت میں اس کیس پر ہونے والے تمام اخراجات بھی انہیں دینے پڑیں گے۔ ایک تخمینے کے مطابق یہ آمدنی پچاس لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ جبکہ فروخت کئے جانے والے دو گھروں کی قیمت بیس سے پچیس لاکھ پائونڈ تھی۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم لندن کے سربراہ الطاف حسین پارٹی قیادت کے بعد برطانیہ میں موجود اپنی جائیداد سے بھی تقریباً ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جس میں الطاف حسین کی رہائش گاہ اور پارٹی کا سابق ہیڈ کوارٹر انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سمیت چھ پراپرٹیز شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم پاکستان کو اس معنی میں بڑی کامیابی ملی ہے کہ عدالت نے اسے اصل ایم کیو ایم اور بینی فشری قرار دیدیا ہے۔ کیس کے اگلے مرحلے میں ٹرسٹیز کے کردار اور اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ ایم کیو ایم کے نام پر حاصل کئے گئے فنڈز بینی فشریز کے لئے استعمال کیے گئے یا پھر ان فنڈز اور ان سے خریدی گئی جائیدادوں کی آمدنی کو الطاف حسین اور ان کے ساتھی اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے۔
اگر یہ ثابت ہوگیا (جس کا امکان بہت زیادہ ہے) کہ الطاف حسین اور ان کے ساتھی ایم کیو ایم کے فنڈز کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں تو انہیں پچھلی دو دہائیوں سے اب تک ایم کیو ایم کو ملنے والے فنڈز، ان سے خریدی گئی پراپرٹیز اور ان سے کرائے اور دیگر مد میں ہونے والی آمدنی کی ساری رقم لوٹانی ہوگی۔
لندن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ کرائے کی مد میں ہونے والی ان چھ پراپرٹیز کی آمدنی ہی کئی ملین پائونڈز بنتی ہے۔ جو الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں سے وصول کی جائے گی۔ الطاف حسین کے زیر استعمال گھر سمیت دیگر پراپرٹیز کے کرائے کا تخمینہ پانچ ملین پائونڈ لگایا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو حاصل دستاویزات کے مطابق شمالی لندن کے مہنگے ترین علاقے ایجویر میں واقع جس عالیشان گھر میں الطاف حسین پچھلی دو دہائیوں سے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔ وہ دو ہزار ایک میں بارہ لاکھ پائونڈ میں خریدا گیا تھا اور اب اس کی مالیت چالیس سے پچاس لاکھ پائونڈز کے قریب ہے۔ اگرچہ یہ گھر بھی دیگر پراپرٹیز کی طرح ٹرسٹ کی ملکیت ہے۔ لیکن پچھلے بائیس برس سے الطاف حسین اس میں کرائے کے بغیر رہ رہے ہیں۔ یوں صرف اس گھر کا کرایہ لاکھوں پائونڈ بنتا ہے۔
اسی طرح الطاف حسین کی رہائش گاہ کے قریب واقع ایک اور گھر دو ہزار پانچ میں پانچ لاکھ ساٹھ ہزار پائونڈ میں خریدا گیا تھا۔ اب اس کی مالیت بھی دگنی ہو چکی ہے۔ تب سے یہ گھر کرائے پر تھا۔ تاہم دو ہزار انیس میں کرائے کی عدم ادائیگی پر اسے خالی کرالیا گیا تھا۔ ہائی ویو گارڈن پر واقع ایک اور گھر میں الطاف حسین کا کزن افتخار حسین اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے۔ یہ گھر بھی دو ہزار ایک کے بعد خریدا گیا تھا۔ کم و بیش دیگر تمام پراپرٹی الطاف حسین کی رہائش گاہ خریدنے کے بعد حاصل کی گئی۔
اس کے علاوہ قریباً پچیس لاکھ پائونڈ مالیت کے دیگر دو گھر الطاف حسین نے دو ہزار سترہ اور اٹھارہ کے درمیان فروخت کر دیئے تھے۔ ان سے حاصل ہونے والی ساری رقم براہ راست الطاف حسین کے اکائونٹ میں گئی تھی۔
واضح رہے کہ یہ دو گھر ان چھ پراپرٹیز سے الگ ہیں۔ جن کا کیس ایم کیو ایم پاکستان نے جیتا ہے۔ کیس کے دوسرے مرحلے کا فیصلہ بھی ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں آنے کی صورت میں ان دونوں گھروں کی فروخت سے آنے والی بھاری رقم بھی الطاف حسین کو واپس لوٹانی پڑے گی۔ جو کہ لندن میں موجود ذرائع کے مطابق الطاف حسین اب تک خرچ کرچکے ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق اگست دو ہزار سولہ میں پاکستان مخالف تقریر کے بعد جب الطاف حسین پر پاکستان میں سیاست کے دروازے بند ہوئے اور اس کے نتیجے میں کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں سے بھتے، جبری زکوٰۃ و فطرہ اور قربانی کی کھالوں سے ہونے والی آمدنی لندن پہنچانے کا سلسلہ بند ہوا تو الطاف حسین مالی مشکلات کا شکار ہوگئے تھے۔ چنانچہ ایم کیو ایم لندن کے سربراہ نے پارٹی ٹرسٹ کی ملکیت ان دونوں گھروں کو فروخت کر دیا۔ تاہم مختصر عرصے میں انہوں نے یہ بھاری رقم بھی اڑا دی۔ جس کے بعد انہوں نے لندن میں پارٹی کے ہیڈ کوارٹر ’’انٹرنیشنل سیکریٹریٹ‘‘ کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک برس سے زائد عرصے تک وہ ایجویر کے مہنگے ترین علاقے ہائی اسٹریٹ پر واقع الزبتھ ہائوس نامی عمارت کے فرسٹ فلور پر واقع یہ دفتر فروخت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن خریدار پارٹی نہ ملی۔ تین ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کی ڈیمانڈ الطاف حسین نے دس لاکھ پائونڈ رکھی تھی۔ فروخت کی ذمہ داری پیٹر منیز نامی کمپنی کو دی گئی تھی۔
ان دنوں ’’امت‘‘ نے بھی کمپنی کے نمائندے سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا تھا کہ الطاف حسین آفس کی زائد قیمت مانگ رہے ہیں۔ جبکہ پراپرٹی کی قیمت ان دنوں گری ہوئی تھی۔ لہٰذا کوئی خریدار نہیں مل رہا تھا۔ حالانکہ کئی پارٹیاں آفس کا وزٹ کرچکی تھیں۔ قصہ مختصر، انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کو فروخت کر کے اس کی رقم بھی ہڑپ کر جانے کی خواہش الطاف حسین کے دل میں رہ گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم پاکستان نے دیکھا کہ ٹرسٹ کی ملکیت پراپرٹیز کو الطاف حسین ایک ایک کرکے فروخت کر رہے ہیں تو اس نے ان جائیدادوں کی ملکیت کے لئے لندن میں کیس دائر کر دیا۔ اس کیس کی سماعت کے کچھ عرصے بعد لندن ہائیکورٹ نے کیس کا فیصلہ نہ ہوجانے تک تمام پراپرٹیز کی فروخت پر پابندی لگادی تھی۔
اب کیس کے دوسرے مرحلے کا فیصلہ دو سے ڈھائی ماہ کے اندر آنے کا امکان ہے۔ پہلا مرحلہ ایم کیو ایم پاکستان جیت چکی ہے۔ جس میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم لندن کے بجائے ایم کیو ایم پاکستان ہی اصل پارٹی اور بینی فشری ہے۔ وہی لندن میں الطاف حسین کی زیر کنٹرول چھ پراپرٹیز کی حقیقی مالک ہے۔ دوسرے مرحلے کی سماعت جلد شروع ہوگی۔
اس معاملے سے جڑے ذرائع کے مطابق دوسرے مرحلے کا فیصلہ بھی ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں آئے گا کہ اس کا کیس خاصا مضبوط ہے۔ یوں دو سے ڈھائی مہینے بعد الطاف حسین، اس کے عزیزوں اور بعض ساتھیوں کے سر سے چھت چھن جانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔