محمد علی :
زیادتی کے جھوٹے الزامات لگانے اور افسانوی کہانیاں گھڑنے والی برطانوی لڑکی قانون کے سامنے بے نقاب ہوکر بالآخر جیل جا پہنچی ہے۔ پاکستانی نژاد شہریوں سمیت متعدد افراد پر ریپ اور انسانی اسمگلنگ کے الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر 22 سالہ الینور ولیمز کو ساڑھے 8 برس قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
عدالت کی جانب سے اس عذر کو بھی مسترد کر دیا گیا ہے کہ الینور پی ٹی ایس ڈی نامی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے۔ بلکہ عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ الینور کے مظلومیت کے دعوؤں سے امن عامہ کی صورت حال بھی خراب ہو سکتی تھی۔ یہی نہیں۔ پرسٹن کراؤن کورٹ نے محسوس کیا کہ فسادی لڑکی الینور نے عدالت کو بھی کئی مواقع پر گمراہ کیا۔
کیس کی سماعتوں کے دوران عدالت کو بتایا گیا تھا کہ الینور نے اپنے 6 موبائل فونز سے جعلی آئی ڈیز بنا رکھی تھیں۔ جن سے وہ ایشیائی مردوں کے اکاؤنٹس بناتی تھیں۔ اس کی یہ حرکت پولیس نے اس وقت پکڑی۔ جب اس نے اپنے گھر کے وائی فائی سے ایک اکاؤنٹ بناکر ایک شخص کو زیادتی کے واقعے میں پھنسانے کی کوشش کی۔ تاہم یہ عقدہ تقریباً دو سال کی عدالتی کارروائی کے بعد کھلا۔ اس وقت تک الینور کے ڈراموں کا شکار ہونے والے کئی افراد کی زندگی جہنم بن چکی تھی۔ جن میں پاکستانی نژاد محمد رمضان اور جارڈن ٹینگوو شامل ہیں۔
واضح رہے کہ برطانوی لڑکی الینور ولیمز کی کارستانیوں پر ’’امت‘‘ نے 5 جنوری 2023ء کو تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ جس میں اس کے تانے بانے ایک ٹی وی ڈرامے سے ملے تھے۔ رپورٹ کے مطابق الینور نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے جنسی جرائم پر مبنی پر ایک ڈرامے سے متاثر ہوکر پاکستانی مسلمانوں سمیت معزز سفید فام شہریوں پر اغوا اور زیادتی جیسے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔
بلکہ مذکورہ لڑکی پر ’’تھری گرلز‘‘ نامی ڈرامے کا ایسا سحر طاری تھا کہ اس نے خود کو ڈرامے کا کوئی مظلوم سا کردار سمجھا۔ تھری گرلز 2017ء میں مسلسل تین روز 16 سے 18مئی تک بی بی سی ون پر نشر کیا گیا تھا۔ جس میں روچڈیل شہر میں بچوں اور ٹین ایجرز کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے ایک ایشیائی گروپ کی کہانی فلمائی گئی تھی۔ برطانیہ میں مذکورہ ڈرامے کو ویور شپ کے اعتبار سے بڑی پذیرائی ملی تھی۔ تاہم اس ڈرامے کا الینور ولیمز پر انتہائی گہرا اور منفی اثرا پڑا۔ نہ صرف یہ کہ وہ ایسے الزامات لگانے لگی۔ بلکہ خود کو زیادتی کا شکار لڑکی بنانے کی عادی مجرم بن گئی۔
الینور ولیمز نے اپنی زندگی کا اس نوعیت کا پہلا الزام اکتوبر 2017ء میں لگایا۔ جس میں اس نے چار مردوں کو اپنا ریپسٹ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد اس نے مئی 2020ء میں ایک ایشیائی گروپ کو ہدف بنایا اور کہا کہ یہ اسے اغوا کرکے ایک گھر میں لے گئے اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یوں موصوفہ نے کئی مردوں پر زیادتی، تشدد، منشیات اور انسانی اسمگلنگ کے الزامات لگا کر ان کی زندگیاں تباہ کیں۔
ابتدا میں الینور ولیمز نے سوشل میڈیا پر تشدد کے نشانات دکھاتے ہوئے کچھ تصاویر بھی پوسٹ کیں۔ جن سے برطانوی معاشرے میں ایشیائی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیل گیا۔ عدالتی فیصلے پر الینور نے اعتراف کیا کہ اس سے غلطی ہوگئی۔ جب اس نے یہ الزامات لگائے تو وہ کم عمر تھی۔ وہ کنفوژن کا شکار تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایک فیس بُک اتنا بھونچال پیدا کر دے گی اور بات فسادات پھوٹنے تک آجائے گی۔
رپورٹ کے مطابق بظاہر الینور ان دعوؤں سے محظوظ ہو رہی تھی۔ اس نے سوشل میڈیا پر لوگوں کی ہمدردیاں اور مال بھی بٹورا۔ الینور کی ’’مظلومیت‘‘ کو دیکھتے ہوئے برطانوی سوشل میڈیا پر ’’جسٹس فار ایلی‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ جس میں اسے ایشیائی گینگ کیخلاف کیس لڑنے کیلئے 22 ہزار پاؤنڈز کے فنڈز مہیا کئے گئے تھے۔
اسی طرح ایک شخص جس پر الینور نے زیادتی کا الزام لگایا تھا، اس کے گھر کی دیوار پر بڑے الفاظ میں RAPIST لکھ دیا گیا۔ ایک سفید فام قدامت پسند گروپ نے صورتحال کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا اور کمبریا کاؤنٹی میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرست حملوں اور اسلاموفوبیا کو ہوا دی۔ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کیلیے ان کے گھروں کی کھڑکیاں توڑی گئیں اور ان کے ریسٹورنٹس کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ جبکہ ایک ٹیک اوے ریسٹورنٹ کے مسلم مالک کو سڑک پر مار پیٹ کے بعد سر پر شراب ڈال دی گئی۔
ایک مقامی صحافی جو اس کیس کا جائزہ لے رہا تھا، کو قتل کی دھمکیوں کی وجہ سے شہر چھوڑنا پڑا۔ ان تمام حالات و واقعات کی وجہ سے کمبریا کاؤنٹی میں کئی بار فسادات ہوتے ہوتے بچے۔ اسکائی نیوز کے مطابق کمبریا کے پرسٹن کراؤن کورٹ نے الینور پر کم از کم 7 مرتبہ عدالت سے جھوٹ بولنے کا مرتکب قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ الینور ولیمز کے خلاف مذکورہ کیس اکتوبر 2021ء سے عدالت میں چل رہا تھا۔