امت رپورٹ :
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اتحادی پارٹیوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگلے ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ نے اس سے قبل اتحادیوں کو یہ یقین بھی دلایا تھا کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لے آئیں گے۔ اس کے باوجود حکومت میں شامل پارٹیوں نے ایک بار پھر اسحاق ڈار کے اس حالیہ وعدے پر یقین کرلیا ہے۔ تاہم ان اتحادیوں کو خود بھی ان تفصیلات کا علم نہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے متعلق کرائی گئی نئی یقین دہانی کو اسحاق ڈار کیسے قابل عمل بنائیں گے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے وزیر خزانہ کی بات پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
پی ڈی ایم کے معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ یقین دہانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اتحادی پارٹیوں کے وزرا اور مشیروں کو بریفنگ دیتے ہوئے کرائی۔
واضح رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین نواں جائزہ پروگرام تاحال تعطل کا شکار ہے۔ لہٰذا وہ اسٹاف لیول معاہدہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔ جس کے تحت آئی ایم ایف قرضے کی معطل شدہ قسط کا اجرا ہونا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرلی گئی ہیں۔ اس کے باوجود معاملے کو غیر ضروری طول دیا جارہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آخری شرط جو رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسٹاف لیول معاہدے سے پہلے آئی ایم ایف، پاکستان سے بیرونی فنانسنگ کی سو فیصد یقین دہانی چاہتا ہے اس کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے چھ ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے۔ اس کے بعد ہی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہوگی۔ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے ارکان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے آئی ایم ایف کے گزشتہ اجلاسوں میں اضافی ڈپازٹ اور انوسٹمنٹ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم اب تک ان تینوں ممالک کی جانب سے یہ پیسہ اسٹیٹ بینک پاکستان میں ڈپازٹ نہیں کرایا گیا ہے۔
ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہونے سے متعلق اسحاق ڈار کی کابینہ ارکان کو یقین دہانی کی ’’خوشخبری‘‘ دینے والے پی ڈی ایم ذرائع سے جب استفسار کیا گیا کہ کیا آئی ایم ایف دوست ممالک سے چھ ارب ڈالر ڈپازٹ کرانے کی شرط سے دستبردار ہوگیا ہے یا پھر دوست ممالک نے اس ہفتے یہ رقم دینے کا وعدہ کرلیا ہے، جس کی بنیاد پر وزیرخزانہ نے یہ دعویٰ کیا ہے؟
اس پر ذرائع کا کہنا تھا کہ کابینہ میں موجود ارکان نے بھی وزیر خزانہ سے اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں کیں کہ اس عرصے میں آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ کس طرح ممکن ہو پائے گا۔ تاہم تمام اتحادی وزرا اور مشیروں نے وزیر خزانہ کی زبان پر اعتبار کرتے ہوئے اعتماد کا اظہار کیا۔ ممکن ہے کہ آئی ایم ایف ڈپازٹ جمع کرانے سے متعلق اپنی اس آخری شرط سے دستبردار ہونے پر تیار ہوگیا ہو یا پھر ان دوست ممالک کی جانب سے یقین دہانی حاصل کرنے میں وزیر خزانہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم وہ قطعیت سے نہیں کہہ سکتے کہ اسحاق ڈار نے یہ یقین دہانی کس بنیاد پر کرائی ہے۔ البتہ اتحادی پارٹیوں نے ان کے وعدے پر اعتبار ضرور کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اتحادی پارٹیوں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لے آئیں گے۔ یہ دعویٰ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت ہونے والے پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں کیا تھا۔ جس میں نواز شریف بذریعہ آن لائن (ورچوئل) شریک تھے۔ تاہم اس وعدے پر اسحاق ڈار عمل نہ کر سکے۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اس بارے میں جب استفسار کیا گیا تو پی ڈی ایم ذرائع نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا دفاع کرتے ہوئے یہ منطق پیش کی کہ ’’وزیر خزانہ کیا کریں۔ وہ دراصل پرانا والا ماحول سمجھ رہے تھے اور اسی بنیاد پر انہوں نے ڈالر دو سو روپے سے نیچے لانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم عمران خان کی پچھلی حکومت جو پھندے لگا کر گئی تھی۔ اس وقت حکومت اس میں پھنسی ہوئی ہے۔ اتحادی حکومت میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف اس قدر زیادہ تنگ کرے گا۔ اس کا ایک سبب پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والا معاہدہ اور پھر اس معاہدے کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا اب آئی ایم ایف اپنی مکمل تسلی چاہتا ہے۔ اس لئے اس کی طرف سے غیر معمولی شرطوں کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔
پی ڈی ایم کے دیگر ذرائع سے بات چیت کے بعد یہ اندازہ بھی ہوا کہ کم از کم نون لیگ اور جے یو آئی یہ سمجھتی ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام میں تاخیر ان عالمی قوتوں کی ایما پر بھی کی جارہی ہے۔ جو ان دونوں پارٹیوں کے بقول عمران خان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ یعنی اس سلسلے میں نون لیگ اور جے یو آئی جو بیانات دے رہی ہیں۔ وہ محض سیاسی نہیں بلکہ دونوں پارٹیوں کو یقین ہے کہ عمران خان کی پشت پر موجود بعض عالمی کردار آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کرداروں کے اشارے پر ہی عمران خان حکومت نے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوایا تھا۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک پاکستان ترمیمی بل پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا۔ جس پر نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام سمیت بعض دیگر اتحادی پارٹیاں اب بھی تنقید کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ ان دنوں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی اس بل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت نے ملک کا معاشی کنٹرول آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے اور یہ کہ عالمی ساہوکار ملک کے لئے ایک تباہ کن سونامی ہے۔