فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان طالبان امیر کو سحری میں باسی روٹی پسند

محمد قاسم :
افغان طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے رمضان المبارک میں اپنے والد مولوی عبد الستار مرحوم کے مدرسے میں درس حدیث دینا شروع کر دیا ہے۔ صبح دس بجے سے نماز ظہر تک وہ درس حدیث دیتے ہیں اور اس کے بعد نماز عصر تک حکومتی احکامات نمٹاتے ہیں۔

طالبان امیر کے قریبی ذرائع کے مطابق مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے تمام اداروں کے سربراہان کو ہدایت کی ہے کہ وہ نہ صرف رمضان کے دوران حکومتی اوقات کے دوران باجماعت نماز کی امامت خود کریں۔ بلکہ نماز ظہر کے بعد پندرہ منٹ تک درس قرآن یا درس حدیث دیا کریں۔ تاکہ رمضان الکریم کی برکات حاصل ہوں اور دوسری طرف سرکاری حکام کو اسلامی احکامات سے بھی آگاہی حاصل ہو۔ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ قیام اللیل اور تلاوت قرآن پاک کا بھی پہلے کی طرح اہتمام کر رہے ہیں۔ جبکہ سحری میں انہیں رات کی بچی ہوئی روٹی کھانا پسند ہے اور ساتھ شہد اور دہی بھی سحری کا لازمی جزو ہے۔ افطار میں اپنے تمام ساتھی علما اور طلبا کو شامل کرتے ہیں۔ رمضان پیکیج کی نگرانی بھی خود کر رہے ہیں۔

مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کے کابل میں موجود ایڈوائزر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو مختلف ممالک سے کھجور، شہد، خشک دودھ، زعفران، سبز چائے، چاکلیٹ سمیت مختلف تحائف ملے ہیں۔ جو انہوں نے اپنے والد مولوی عبدالستار مرحوم کے تینوں مدارس کے اساتذہ اور قندھار کے سرکاری حکام میں تقسیم کئے ہیں۔ جبکہ کچھ کو کابل بجھوا دیا گیا ہے۔

حکومت میں آنے کے باوجود بھی یہ دوسرا رمضان ہے، جو مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کا آغاز درس حدیث سے کرتے ہیں اور اس کے بعد حکومتی امور نمٹاتے ہیں۔ تاہم ایڈوائزر کے مطابق اگر زیادہ ضروری کام ہوں تو درس حدیث شروع ہونے سے قبل ہی اس کو نمٹا دیتے ہیں۔ جبکہ تراویح کی نماز کے لئے چار قاری رکھے گئے ہیں۔ پانچوں باجماعت نمازوں کی امامت مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ خود کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی سیکورٹی افغان فوج کے خالد بن ولید بریگیڈ کے کمانڈوز کرتے ہیں۔

مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کے ساتھ ان کے قریبی ساتھی بھی رمضان المبارک میں موجود ہیں۔ مولوی ہیبت اللہ کے رمضان کے معمولات میں صرف حکومتی امور کی انجام دہی اور حکومتی امور سے متعلق ہدایات کا اضافہ ہوا ہے۔ باقی تمام معمولات وہی ہیں جو جنگ کے دوران تھے۔ یعنی قہوے کے ساتھ سحری میں رات کی بچی ہوئی روٹی کھانا معمول ہے اور یہ روٹی وہ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ دہی اور شہد کا استعمال بھی سحری کا لازمی جزو ہے۔

ایڈوائزر کے مطابق افطاری میں بڑے پیمانے پر طلبہ کے ساتھ مل کر افطاری کی جاتی ہے۔ جس میں قندھاری نان کے ساتھ ساتھ کابلی پلائو، شوربہ، کھجوریں، دہی اور میٹھی لووے شامل ہوتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام تر مصروفیات کے باوجود قیام الیل اور تلاوت کلام پاک ماضی کی طرح جاری ہے۔ وہ نماز تراویح کے بعد حکومتی عہدیداروں یا طالبان کے اہم رہنمائوں کے ساتھ نشست کے بعد قیام الیل شروع کرتے ہیں اور سحری تک یہ قیام الیل تلاوت قرآن پاک جاری رہتا ہے۔ نماز فجر کے بعد آرام کرتے ہیں اور دس بجے کے بعد درس حدیث شروع کر دیتے ہیں۔

دوسری جانب قندھار میں موجود ذرائع کے مطابق مولوی ہیبت اللہ کے قریبی ساتھی اور طالبان کے اہم رہنما جن کے پاس اس وقت کوئی حکومتی عہدے نہیں یا وہ علمائے کرام جن کا مولوی ہیبت اللہ کے والد مولوی عبدالستار کے مدارس سے وابستگی رہ چکی ہے۔ وہ رمضان المبارک گزارنے کے لئے ان کے پاس آتے ہیں اور ہفتہ دو ہفتے گزارتے ہیں اور یہ سلسلہ عید تک جاری رہتا ہے۔ امریکی قبضے کے دوران یہ سلسلہ زیر زمین دس سے پندرہ ساتھیوں تک جاری رہتا تھا۔ لیکن اب آزادانہ جاری ہے۔ تاہم مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کے زیادہ گھومنے پھرنے پر ابھی بھی پابندی ہے۔ کیونکہ امریکی بلیک لسٹ میں وہ ابھی تک شامل ہیں اور افغانستان کی فضائوں میں اکثر اوقات ڈرون کی پروازوں سے افغان طالبان امیر مولوی ہیبت اللہ سے لیکر کئی اہم رہنمائوں کی سیکورٹی کو راز میں رکھا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق مولوی ہیبت اللہ نے رمضان سے ایک ہفتہ قبل ملا عمر مسجد کا افتتاح کیا جو ملا عمر نے اپنی زندگی میں قندھار میں بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن انہیں بعد میں امریکی بمباری میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اب اس مسجد کو توسیع دے کر اس کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔ جس میں تقریباً تین ہزار کے قریب نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔

ملا عمر کے بنائے گئے نقشے کے مطابق اسے تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس کی دیکھ بھال بھی مولوی ہیبت اللہ کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ تاہم رمضان المبارک میں اس کی دیکھ بھال قندھار کے گورنر کے حوالے کی گئی ہے۔ دوسری جانب مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے اس سال بھی اپنے والد کے تینوں مدارس کے طلبہ کو راشن کے ساتھ ساتھ ان کو کپڑے اور دیگر سامان بھی مہیا کر دیا ہے۔ جبکہ قندھار میں غریب لوگوں کے لئے مہیا کئے گئے راشن کی نگرانی بھی خود کر رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ہدایات بھی دے رہے ہیں۔

 

مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے پورے ملک میں رمضان پیکیج کے حوالے سے انہیں رپورٹیں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کیونکہ ان کی کوشش ہے کہ رمضان المبارک کے دوران زیادہ سے زیادہ مستحقین کی مدد کی جائے۔

ذرائع نے ’’امت‘‘ کو یہ بھی بتایا کہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ اپنے والد کے مدرسے کے اساتذہ کے ساتھ بھی خصوصی تعاون کرتے ہیں اور وہ اساتذہ جنہوں نے افغانستان کے طول و عرض میں اپنے مدارس قائم کئے ہیں۔ ان کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ ان مدارس کے اساتذہ نے امریکی قبضے کے دوران مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کی حفاظت اور پناہ گاہیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس میں شمالی افغانستان میں واقع دو مدارس کی خصوصی طور پر مدد کی جاتی ہے۔