محمد علی :
امریکا کے صدر جو بائیڈن اور ان کی اہلیہ جل بائیڈن نے ایک طرف جہاں مسلمانوں کو ماہ صیام کی مبارک باد دی ہے، وہیں پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کے مصداق امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں رمضان المبارک کی آمد پر بم بھی برسا دیے۔
بتایا جا رہا ہے کہ جمعرات کے روز جس دن مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں پہلا روزہ تھا، امریکی فضائیہ نے شمالی شام میں بمباری کرکے 14 بے گناہ شہریوں کو شہید کردیا۔ امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے کہا ہے کہ فضائی کارروائی ایرانی ڈرون حملے کے جواب میں کی گئی، جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور 5 دیگر فوجی زخمی ہوگئے تھے۔ پیناگون نے اپنے بیان میں ہلاک ہونے والوں اور بمباری کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
پینٹاگون کے مطابق جس وقت شمالی شام کے شہر الحسکہ میں واقع امریکی فوجی اڈے پر حملہ کیا گیا وہ مکمل طور پر آپریشنل نہیں تھا۔ اور یہ کہ کارروائی کے فوری بعد زخمی امریکی اہلکاروں کو طبی امداد کیلئے عراق منتقل کیا گیا۔ واضح رہے کہ عراق میں اب بھی ڈھائی ہزار امریی فوجی تعینات ہیں، جو بغداد اور شمالی فوجی تنصیاب میں موجود ہیں۔ جبکہ شام میں لگ بھگ 900 امریکی فوجی کرد فورسز کی مدد اور داعش سے ’’نمٹنے‘‘ کیلیے موجود ہیں۔
سینٹ کام کمانڈر جنرل ایرک کوریلا کے مطابق جنوری 2021ء سے اب تک ایرانی پراکسیز نے عراق اور شام میں امریکی فوج پر 78 مرتبہ حملہ کیا ہے جس میں ڈرونز اور راکٹوں کو استعمال کیا گیا۔ امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایرانی ڈرون کے حملے میں ایک دوسرا امریکی کنٹریکٹر بھی زخمی ہوا۔ امریکی فوجی اڈوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ اگلے روز یعنی جمعہ کو بھی جاری رہا۔
حکام نے سی بی ایس کو بتایا ہے کہ جمعہ کو تین امریکی بیسز کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک امریکی سروس مین زخمی ہوا۔ شمال مشرقی شام میں ہونے والے حملے سے متعلق پینٹاگان نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ شام کے شہر حسکہ میں جمعرات کی دوپہر ایک بجکر 38 منٹ پر فوجی اڈے کی مینٹی ننس فیسلیٹی کو ڈرون حملے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ ایرک کوریلا نے کہا ہے کہ اگر ضرورت محسوس کی تو اس طرح کے مزید فضائی حملے کیے جائیں گے۔
ادھر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان سمجھے جانے والے جریدے نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام میں امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر بائیڈن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امریکہ ایران پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ان کے اس بیان سے بعض مبصرین یہ محسوس کر رہے ہیں کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں پراکسی وار لڑنے کی کوشش میں ہے۔ جبکہ مشرقی شام میں تازہ امریکی کارروائی کا مقصد ایران اور شام سے تعلقات بہتری پر سعودی عرب کو خبردار کرنا بھی ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مشرق وسطیٰ کے اسٹیک ہولڈرز کے تعلقات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران نے اپنے سفارتی تعلقات بحال کئے اور دونوں ممالک نے سفارت خانے کھولنے کا بھی اعلان کیا۔ جبکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ایرانی صدر کو دورے کی دعوت بھی دی، جسے انہوں نے قبول کرلیا۔
اسی طرح شام کے ساتھ بھی سعودی عرب ایک دہائی سے ڈیڈ لاک کا شکار سفارتی روابط شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یوں امریکہ کو خطے پر سے اپنی گرفت کمزور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جبکہ مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ پر بھی امریکہ بہادر تلملا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی ترجمان نے کہا تھا کہ چین کا مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا بین الاقوامی نظام کے لیے سازگار نہیں ہے۔ سعودی عرب ہمارا 80 سال سے اتحادی ہے مگر اوپیک پلس کے حالیہ فیصلے کے بعد ہم دو طرفہ تعلقات کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔