عمران خان :
احساس پروگرام کے نام پر شہریوں کو 10 ہزار سے 20 ہزار روپے کی معمولی رقم دے کر ان کے کوائف اور بینک اکائونٹس 80 کروڑ روپے کے تاریخی بینک فراڈ کیلیے استعمال کیے گئے۔ جس کی ماسٹر مائنڈ منصوبہ ساز ایک خاتون ہے۔ اس اسکینڈل پر 2021ء سے اب تک پولیس اور ایف آئی اے میں مجموعی طور پر 6 مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔ جن میں فراڈ، کرپشن، جعلسازی، اینٹی منی لانڈرنگ اور ملکی اور غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی خرید و فروخت اور ترسیل کے الزامات ہیں۔
یہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد بینک فراڈ ہے۔ جس میں اتنے مختلف نوعیت کے مقدمات ایک ہی ماسٹر مائنڈ کے خلاف قائم ہوئے۔ جبکہ اس اسکینڈل میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں، بینک کھاتے اور گاڑیاں منجمد کی جاچکی ہیں۔ مزید ریکوری کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کیلئے امریکی اور برطانوی حکام کو بھی خطوط لکھے جاچکے ہیں۔ یہ ملکی تاریخ کا پہلا کیس ہے۔ جس پر ایف آئی اے میں اینٹی منی لانڈرنگ یونٹ علیحدہ سے قائم ہونے کے بعد پہلا مقدمہ درج کیا گیا۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات اور اطلاعات کے مطابق 2018ء میں ایک مقامی نجی بینک جے ایس کی جانب سے شہریوں کیلئے ایک اسکیم شروع کی گئی۔ جس کے تحت شہری اپنے پاس موجود سونا اور طلائی زیورات بینک میں گروی رکھو اکر آسانی سے ڈھائی کروڑ روپے مالیت کا قرضہ ایک برس میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی اسکیم کے تحت کراچی کی ایک رہائشی خاتون عائشہ مرزا نے جے ایس بینک کی مقامی برانچ میں طلائی زیورات گروی رکھوا کر ڈھائی کروڑ روپے کا لون لیا۔
اس دوران اس نے گلستان جوہر برانچ میں اپنی بیٹی فاطمہ لائبہ کے ساتھ اپنا مشترکہ بینک اکائونٹ قائم کیا۔ چونکہ اس خاتون کا اس بینک کی برانچ میں آنا جانا معمول تھا۔ اس لئے اس کی برانچ کے کئی افسران سے جان پہچان ہو گئی۔ اسی دوران عائشہ مرزا کے ذہن میں ایک منصوبہ پکنا شروع ہوا کہ کیوں نہ کچھ ایسے لوگوں کو بینک میں لایا جائے۔ جنہیں اس گولڈ اسکیم کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو اور ان کے انگوٹھے لگوا کر اور شناختی کوائف استعمال کرکے ان کے بینک کھاتے بنوائے جائیں اور ان کے ناموں پر قرضہ لیا جائے۔
منصوبے پر عمل کرنے کیلیے خاتون نے بینک کی گلستان جوہر اورگلشن اقبال برانچز کے منیجرز آغا منصور اور فرح منصور سے مکمل معلومات حاصل کرنا شروع کیں۔ ساتھ ہی بینک کے گولڈ ایگزیکٹو افسر عدیل لطیف سے بھی رابطے استوار کرلیے۔
بعد ازاں خاتون نے اپنے رابطے میں موجود ایک غریب خاندان کو جھانسا دیا کہ اس کی بہت جان پہچان ہے اور وہ اسے احساس اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد دلوا سکتی ہے۔ اس خاندان کے سرپرست کو عائشہ مرزا اپنے ساتھ بینک لائی اور اس سے مختلف فارمز پر دستخط کرانے اور انگوٹھے لگوانے کے بعد بائیو میٹرک تصدیق کروائی اور یوں اس کے نام پر ڈھائی کروڑ قرضہ کیلئے پہلی درخواست دی گئی۔
اس شخص کو 10 سے 15 ہزار روپے دے کر مزید غریب خاندانوں کو لانے کی ہدایت کی گئی۔ اس واردات میں بینک افسران کی ملی بھگت سے اسی مالیت کا جعلی سونا بینک کے لاکرز میں رکھوا کر قرضہ کی نقد رقم وصول کرلی گئی۔ اس طرح اس فراڈ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ جس میں آئندہ آنے والے مہینوں میں 200 شہریوں کو جھانسا دے کر لایا جاتا رہا اور ان کے ناموں پر کروڑں روپے قرضے لئے جاتے رہے۔ ان رقوم سے کراچی، اسلام آباد میں کروڑوں روپے کی 50 سے زائد جائیدادیں خریدی گئیں۔ جس میں ملزمہ عائشہ مرزا کی والدہ کے نام پر خریدی گئی 31 جائیدادیں بھی شامل ہیں۔
پُرتعیش کاروں کے علاوہ لاکھوں ڈالرز بیرون ملک منتقل کئے گئے۔ عائشہ مرزا، برانچ منیجر آغا منصور اور برانچ منیجر فرح منصور اس وقت سینٹرل جیل میں ہیں اور ان کی ضمانت کی درخواستیں بینکنگ کورٹ سے مسترد ہوچکی ہیں۔ جبکہ ملزمہ عابدہ برلاس، فاطمہ لائبہ، عذرا لطیف اور دیگر ضمانت پر ہیں۔
اسکینڈل کی تفتیش میں ملنے والی وڈیوز اور آڈیوز کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ عائشہ مرزا جب بھی برانچوں میں داخل ہوتیں۔ وہ چوکیدار اور سوئپرز، ویٹرز اور دیگر ماتحت ملازمین میں ہزاروں روپے تقسیم کرتی تھی۔ اس لئے وہ بینک میں پسندیدہ ترین کھاتے دار تھی۔ عام طور پر بینکوں میں لین دین 5 بجے بند کردیا جاتا ہے۔ تاہم عائشہ مرزا ان برانچوں میں کبھی رات 8 بجے تک بھی موجود رہتی اور کیس کے ڈبے اس کی گاڑی میں رکھوائے جاتے۔
اس کی آڈیوز سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اکثر بینک مالک سے زیادہ شیئرز اور سونا اسٹاک ایکسچینج میں اپنی ملکیت میں لانے کی باتیں کرتی تھی۔ اس کے خواب بہت بڑے تھے۔ یہ فراڈ اربوں روپے میں داخل ہوا ہی تھا کہ بینک کے آڈٹ کرنے والی ایک ٹیم کو سونا لاکرز میں رکھنے والے وڈیوز کے ریکارڈ کی چھان بین کے دوران ایک وڈیو پر شک گزرا۔ اس میں سنار سے تصدیق کے بعد جب سونے کو سیل کرنے اور مہریں لگا کر لاکرز میں رکھنے کا عمل جاری تھا تو اس دوران وڈیو میں خلل پیدا ہو رہا تھا۔
یعنی یوں لگ رہا تھا کہ یا تو اس کو روکا گیا تھا یا پھر اس کو ایڈٹ کیا گیا۔ مکمل چھان بین کی گئی تو کروڑوں روپے کا جعلی سونا لاکرز سے بر آمد ہوگیا۔ یوں اس اسکینڈل پر تحقیقات کیلئے بینک انتظامیہ کی جانب سے اداروں کو درخواستیں دی گئیں۔
اس میں پہلا مقدمہ عزیز بھٹی تھانہ میں درج مقدمہ الزام نمبر 763/2021 میں درج ہوا۔ مقدمہ کی تفتیش میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 99/2022 درج کی گئی۔ جس میں معلوم ہوا کہ گلشن اقبال بلاک 13 بی میں قائم جے ایس بینک برانچ کے منیجر آغاز منصور نے ملزمہ عائشہ مرزا، عدیل لطیف، آپریشنل منیجر کامران، ریلیشن شپ منیجر محمد سلیم اور دیگر کے ساتھ مل کر بینک کی جانب سے پیش کی گئی گولڈ لون اسکیم یعنی سونا اور طلائی زیورات گروی رکھوا کر قرضہ لینے کی اسکیم میں جعلی درخواست گزاروں کے ذریعے قرضے کی درخواستیں دے کر اور اس کے عوض جعلی سونا رکھوا کر 20 کروڑ روپے سے زائد کا فراڈ کیا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ فراڈ کی رقوم سے ملزم عدیل لطیف نے اپنی والدہ عذرا لطیف کے نام 50 لاکھ روپے کی دو ہنڈا کاریں خریدیں۔ جس کیلئے ادائیگی جے ایس بینک کی گلستان جوہر برانچ سے ملزمہ عائشہ مرزا اور اس کی بیٹی فاطمہ لائبہ کے مشترکہ کھاتے سے آنے والی رقوم سے کی گئی۔ ان معلومات کی روشنی میں تمام ملزمان کے خلاف ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں مقدمہ الزام نمبر 37/2021درج کرکے مزید تفتیش شروع کی گئی۔
اسی اسکینڈل کا دوسرا مقدمہ گلستان جوہر میں روفی لیک ڈرائیو میں واقع جے ایس بینک کی برانچ میں ہونے والے فراڈ پر ابتدائی طور پر شارع فیصل تھانے میں مقدمہ الزام نمبر 987/2021 درج کیا گیا۔ جس کی تفتیش میں اینٹی منی لانڈرنگ کی کارروائی کیلئے معاملہ ایف آئی اے کو دیا گیا۔ مزید تفتیش کیلئے ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں انکوائری نمبر 98/2021 درج کی گئی۔
جس میں انکشاف ہوا کہ ملزمہ عائشہ مرزا نے اپنی ساتھی ملزمہ برانچ منیجر فرح منصور، عدیل لطیف، جیسن رونالڈ، ولید احمد عرف وقاص، ریلیشن شپ منیجر دانیال جبار، کیشیئر صفدر شبیر، آپریشنل منیجر ذوالفقار علی کے ساتھ مل کر بینک کی جانب سے پیش کی گئی گولڈ لون اسکیم یعنی سونا اور طلائی زیورات گروی رکھوا کر قرضہ لینے کی اسکیم میں جعلی درخواست گزاروں کے ذریعے قرضے کی درخواستیں دے کر اور اس کے عوض جعلی سونا رکھوا کر کروڑوں روپے سے زائد کا فراڈ کیا۔ اس انکوائری میں عائشہ مرزا اس تمام فراڈ کی ماسٹر مائنڈ قرار دی گئی۔ جس نے اپنی بیٹی فاطمہ لائبہ کے نام پر جے ایس بینک کی اسی گلستان جوہر کی برانچ میں موجود اکائونٹ سے فراڈ سے کمائی گئی رقوم میں سے 11 کروڑ روپے دیگر مختلف اکائونٹس میں منتقل کرائے۔
مزید شواہد سامنے آئے کہ عائشہ مرزا نے اپنی بہن صائمہ فہد تنویری کو 50 لاکھ روپے بطور تحفہ بھجوائے۔ اسی طرح عائشہ مرزا نے امریکہ میں موجود اپنے بھائی سہیل مرزا کو 92 ہزار ڈالرز بھجوائے۔ جس سے سہیل مرزا نے امریکہ میں 820 سائمن ڈرائیو پیلانو میں جائیداد خریدی اور ایک خاندانی فرم قائم کی۔ جبکہ برانچ منیجر فرح منصور نے بھی اس فراڈ سے فائدہ اٹھایا اور ماسٹر مائنڈ عائشہ مرزا کے ذریعے اسلام آباد میں اپنے لئے ایک رہائشی مکان کی خریداری کی۔ اس انکوائری میں سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں اسی اسکینڈل میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کا دوسرا مقدمہ الزام نمبر 09/2022 درج کیا گیا۔
اس اسکینڈل میں حالیہ دنوں میں اس وقت بڑی پیش رفت سامنے آئی۔ جب ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سیل نے جعلی گولڈ اسکینڈل کے عوض کروڑوں کے فراڈ میں ملوث مرکزی ملزمہ کی امریکہ اور برطانیہ میں فرم اور جائیداد کا سراغ لگا لیا۔ ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالروئف شیخ کی سربراہی میں ایس ایچ او اسٹیفن شریف نے مقدمہ الزام نمبر 01/2023 درج کرکے بینک کیلئے سونے اور طلائی زیورات کی جانچ پرکھ کرنے والے اور تخمینہ لگانے والے جیولر کو اسکینڈل میں ملی بھگت کرنے پر گرفتار کیا۔
ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جعلسازی میں مرکزی کردار خاتون نے 106 کیسسز میں جعلی گولڈ کا درست تخمینہ لگانے والے گرفتار ملزم حسن اختر کو ہنڈا ویزل گاڑی تحفے میں دی تھی۔ جسے اس کیس میں عدالتی کارروائی کے بعد بحکم سرکار ضبط کرلیا گیا ہے۔ جبکہ اس جعلسازی سے کراچی میں خریدی گئی دیگر جائیدادوں کا سراغ لگایا جارہا ہے۔ دوسری جانب کراچی میں نجی بینک کے گولڈ لون اسکینڈل کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی کے علاقے گلبہار میں جیولر شاپ پر چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے۔ چھاپہ مار کارروائی گلبہار کے علاقے میں قائم الحاج رحیم داد جیولرز پر کی گئی۔
کارروائی میں بینک کیلیے مرتب تخمینوں کی دستاویزات، چیک بکس اور مصنوعی زیورات برآمد ہوئے۔ جبکہ اسی کیس میں ملزمہ عائشہ مرزا کے امریکہ میں موجود بھائی سہیل مرزا کو مفرور قرار دے دیا گیا ہے۔ اس انکوائری میں ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں ایک چھٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس میں خاتون اور دیگر ملزمان پر غیر قانونی طور پر امریکی ڈالرز خرید کر بیرون ملک منتقل کرنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔