امت رپورٹ :
سپریم کورٹ پاکستان کے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کے از خود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا ہے۔ ساتھ ہی دونوں معزز جج صاحبان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے ’’ون مین پاور شو‘‘ کے اختیار پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔
اس تفصیلی اختلافی نوٹ نے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ جس طرح اس وقت قوم تقسیم ہے۔ عدلیہ بھی منقسم ہو چکی ہے۔ تفصیلی اختلافی نوٹ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ الیکشن کمیشن پاکستان کے پنجاب میں انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔ یہ درخواست تحریک انصاف نے دائر کی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ آگے بڑھاکر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے اپنے از خود نوٹس میں الیکشن کمیشن کو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے نوے دن کے اندر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
از خود نوٹس کے تحت آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے پیر کو جاری اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ میں قرار دیا کہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کے چار ججز نے چیف جسٹس پاکستان کے ازخود نوٹس کو مسترد کر دیا۔ لہٰذا فیصلہ تین، دو کا نہیں بلکہ چار، تین کا ہے۔ یوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اس تفصیلی اختلافی نوٹ کے بعد بظاہر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا معاملہ پس پشت جاتا دکھائی دے رہا ہے اور پہلے ان سوالات کو حل کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، جنہیں سپرم کورٹ کے دو ججز نے اٹھایا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد کے بقول دو ہزار سترہ میں کراچی میں آل پاکستان بار ایسوسی ایشنز کی کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں اسی نوعیت کے مطالبے کئے گئے تھے کہ چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات کو ریگولیٹ کیا جانا چاہئے۔ جبکہ بنچ بنانے سے متعلق صرف ایک شخص کے اختیارات کا بھی جائزہ لینا چاہئے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے بیرسٹر صلاح الدین کا مزید کہنا تھا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ جب تک یہ طے نہیں ہو جاتا کہ پچھلا فیصلہ تین دو کا تھا یا تین چار کا تھا، بات آگے بڑھنا مشکل دکھائی دے رہی ہے۔
اس سارے معاملات پر بات کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین سید امجد شاہ کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کے پاس بنچ بنانے کا اختیار تو ہے۔ تاہم بنچ توڑنے کا اختیار ان کے پاس نہیں۔
پچھلا فیصلہ تین دو کا تھا یا تین چار کا تھا۔ اس فیصلے سے حکومت کے فیصلے کی تائید ہوتی ہے۔ از خود نوٹس کیس سننے والا سات رکنی بنچ چیف جسٹس پاکستان نے توڑ کر پانچ رکنی بنچ بنا دیا تھا۔ اگرچہ اختلافی نوٹ دینے والے سپریم کورٹ کے دو دیگر جج کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت میں نہیں بیٹھے تھے۔ تاہم انہوں نے اپنی رائے دے دی تھی۔ لہٰذا ان کی رائے کورٹ آف آرڈر کا حصہ تصور کی جائے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے پانامہ کیس کے حتمی فیصلے میں ان ججوں کی رائے کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ جو سماعت کے موقع پر عدالت میں نہیں بیٹھے تھے۔ اس کا ذکر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اختلافی تفصیلی اختلافی نوٹ میں بھی کیا ہے۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سید امجد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ازخود نوٹس کے کیس میں اگرچیف جسٹس پاکستان بنچ نہیں توڑتے تو فیصلہ مختلف آنا تھا۔ پھر یہ کہ فیصلہ کرتے وقت اس اہم نکتے پر بھی غور نہیں کیا گیا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنا اگرچہ وزیراعلیٰ کا آئینی اختیار ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اسمبلیاں آئینی طور پر تحلیل کی گئیں یا نہیں۔ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ لازمی ہونی چاہئے۔ ایک سوال پر سید امجد شاہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن پاکستان پر توہین عدالت لگنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ الیکشن کرانا اگرچہ الیکشن کمیشن پاکستان کا کام ہے۔ لیکن اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لئے اسے انتظامیہ کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وزارت دفاع اور وزارت خزانہ سمیت دیگر متعلقہ ادارے اس تعاون سے معذوری کا اظہار کر دیں تو اس میں الیکشن کمیشن پاکستان کیا کر سکتا ہے۔
سید امجد شاہ کے بقول تحریک انصاف کی پٹیشن سپریم کورٹ کے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا واحد حل فل کورٹ کی تشکیل ہے۔ جو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ سمیت دیگر تمام اہم معاملات کو سن کر متفقہ فیصلہ کرے تاکہ اختلاف رائے کی گنجائش نہ رہے۔
واضح رہے کہ پیر کو جاری کئے گئے اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور چیف جسٹس جمال مندوخیل نے یہ بھی کہا ہے کہ ون مین شو نہ صرف فرسودہ بلکہ ایک برائی ہی ہے۔ ون مین شو مختلف آرا کو محدود کرتا ہے اور اس سے آمرانہ حکمرانی کا خطرہ ہے۔ جبکہ مشترکہ رائے سے ہونے والی فیصلہ سازی طاقت کا توازن برقرار رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ چیف جسٹس کے پاس ازخود نوٹس، بنچز کی تشکیل اور مقدمات فکس کرنے کا اختیار ہے۔